ذ ہنی دباوٗ (ڈپریشن)سے رہائی

ذ ہنی دباوٗ (ڈپریشن)سے رہائی

دُعا
اَےخُداوند یسوع،میں اپنا سب کچھ تیرے حوالے کرتا/کرتی ہوں۔ میرے خیالات،میرا دل اور میری جان سب تیرے ہیں۔ اَے یسوع مجھے اپنی پاک حضوری سے معمورکردے۔
اَ ے خُداوند میرے اندر سے تاریکی کے ان تمام کاموں کو مٹا دے جو تیری طرف سے نہیں ہیں۔میں اپنے بدی کے سب خیالات(جذبات) کو تیری صلیب کے نیچے ڈال دیتا /دیتی ہوں۔مجھے رہا کر(یہاں ان تمام تاریکی کے کاموں کو تحریر کریں جو آپ اپنے اندر محسو س کرتے ہیں)۔
میں اعلان کرتا/کرتی ہوں کہ میری مافوق الفطرت خوشی کا منبع تو ہے۔اَے یسوع، صرف تو ہی میری زندگی کے ہر تاریک حصہ کو روشن کر سکتاہے۔تو ماضی کے تمام زخموں کو مٹا سکتا ہے اور مجھے خوشی بخش سکتاہے۔ اَے یسوع میں تیری حضوری میں شادمان ہوں!
اَے خداوند ہر رو ز مجھے شادمانی عنایت کر۔تیرا نور مجھ پر چمکے اور میرے وسیلہ سے اِرد گرد لوگوں تک بھی پہنچے۔میں یسوع کے لہو کو اپنے دل، دماغ اور جان میں مانگ لیتا /لیتی ہوں تاکہ پھر کبھی مایوسی کا شکار نہ ہوں۔یسوع کے نام میں آمین۔
اِقرار واَعلان
خداوند میری قوّت اور میری سِپر ہے۔ میرے دل نے اُس پر توّکل کیا ہےا ور مجھے مدد ملی ہے ۔اِسی لئے میرا دل نہایت شادمان ہے اور میں گیت گاکر اس کی ستائش کروں گا۔ زبور ۲۸: ۷

تومجھے زندگی کی راہ دکھا ئے گا۔
    تیرے حضور میں کامِل شادمانی ہے۔
  تیرے داہنے ہاتھ میں دائمی خوشی ہے۔ زبور ۱۶ : ۱۱

تو بھی میں خداوند سے خوش رہوں گا
اور اپنے نجات بخش خدا سے خوش وقت ہوں گا۔ حبقوق ۳ : ۱۸
کیونکہ اے خدا وند !تو نے مجھے اپنے کام سے خوش کیا۔
میں تیری صنعت کاری سے سبب سے شادیانہ بجاوٗں گا۔ زبور ۹۲ : ۴

اس لئے کہ خداوند تیرا خداتیرے سارے مال میں او رسب کاموں میں جن کو ہاتھ لگائے تجھ کو برکت بخشے گا۔سو تو پوری پوری خوشی کرنا۔ استثنا ۱۶ : ۱۵

حوالہ جات
صبح کو اپنی شفقت سے ہم کو آسودہ کر ۔تاکہ ہم عمر بھر خوش و خرم رہیں۔ زبور ۹۰ : ۱۴

اے میرے بھائیوں جب تم طرح طرح کی آزمائشیوں میں پڑو ۔ تو اس کو یہ جان کر کمال خوشی کی بات سمجھنا کہ تمہارے ایمان کی آزمائش صبر پیدا کرتی ہے۔ یعقوب ۱ : ۲۔۳

اور جن کو خداوند نے مخلصی بخشی لوٹیں گے اور صیون میں گاتے ہوئے آئیں گے اور ابدی سرور ان کے سروں پر ہوگا وہ خوشی اور شادمانی حاصل کریں گے اور غم و اندو کافور ہو جائیں گے۔ یسعیاہ ۳۵ : ۱۰

کیونکہ اس کا قہر دم بھر کا ہے اور اس کا کرم عمربھر کا۔رات کو شاید رونا پڑے پر صبح کو خوشی کو نوبت آئے گی۔ زبور ۳۰ : ۵

اَے سب اُمتو ! تالیا ں بجاوٗ۔خدا کے لئے خوشی کی آواز سے للکارو۔ زبور ۴۷ : ۱

پس خدا جو امید کاچشمہ ہے تمہیں ایمان رکھنے کے باعث ساری خوشی اور اطمینان سے معمور کرے تاکہ روح القدس کی قدرت سے تمہاری امید زیادہ ہوتی جائے۔
رومیوں ۱۵: ۱۳

خداوند میں ہر وقت خوش رہو، پھر کہتا ہوں کہ خوش رہو۔ فلپیوں ۴ : ۴

خداوند کی حمد کرو۔ مبارک ہے وہ آدمی جو خداوند سے ڈرتا ہے اور اس کے حکموں میں خوب مسرور رہتا ہے۔ زبور ۱۱۲: ۱

اس سے تم بے دیکھے محبت رکھتے ہواور اگرچہ اس وقت اس کو نہیں دیکھتے تو بھی اس پر ایمان لا کر ایسی خوشی مناتے ہو جو بیان سے باہر اور جلا ل سےبھری ہے اور اپنے ایمان کا مقصد یعنی روحو ں کی نجات حاصل کرتے ہو۔ ۱ پطرس ۱ : ۸۔۹

اور اِیمان کے بانی اور کامل کرنے والے یسوع کو تکتے رہیں جس نے اُس خوشی کے لئے جو ا ُس کے سامنے تھی شرمندگی کی پرواہ نہ کر کے صلیب کا دُکھ سہا او رخدا کے تخت کی دہنی طرف جا بیٹھا۔ عبرانیوں ۱۲ : ۲

روح کا پھل

 

روح کا پھل

روح کے ۹ پھل ہیں۔ یہ ہمارے اندرسے نہیں بلکہ براہٗ راست خدا کے پاک روح سے جاری ہوتے ہیں  ۔ یہ وہ نعمتیں ہیں  جو ہمیں آسمانی باپ سے ملتی ہیں۔وہ  ہمیں توفیق عنایت کرتا ہے کہ ا س کی خوبیوں  کو اپنےا ندر رکھیں اورآسمانی مقاموں میں رسائی حاصل کریں۔ہمارے باپ کی نعمتیں نہ صرف ہمیں اندر باہر سے تبدیل کرتی ہیں بلکہ ہمارے اِرد گرد رہنےوالے لوگوں کی زندگیوں کو بھی بدل دیتی ہیں۔ ان پھلوں کے وسیلہ سے ہم خدا کا نور دوسروں پر چمکاتے ہیں تاکہ وہ ہمارے وسیلہ سےاُس کو جا ن سکیں۔

ہم اِن خوبیوں کو خود سے پیدا نہیں کر سکتے۔یہ روح القدس سے جنم لیتی ہیں جو ہمارے اندر رہتاہے۔ جس قسم کا بیج بویا جاتا ہے اُسی قسم کا پھل پیدا ہوتا ہے۔خدا کا روح اس وقت ہم میں بستا ہے جب ہم یسوع کو اپنے دلوں اور زندگیوں میں دعوت دیتے ہیں۔اور پھر خدا کی خوبیاں ہم میں سے ظاہر ہوتی ہیں۔اوربعض اوقات ہمیں کچھ بھی نہیں کرنا پڑتا۔ جتنا زیادہ ہم اس کے ساتھ وقت گزاریں گے اور اس کے کلام کو پڑھیں گے اتنا ہی ہم تبدیل ہوتے جائیں گے۔

اگر ہمیں محسوس ہو کہ خدا کی   ان خوبیوں میں سے ایک   بھی خوبی  ہم میں موجود نہیں ہے تو ہم ہمیشہ خدا سے مدد کی درخواست کر سکتے ہیں۔وہ خوش ہوتا ہے جب ُاس کے فرزند اُس کی خوبیوں کو اپنے اندر رکھنا چاہتے ہیں۔ آج ہی خدا سے مانگیں اور وہ آپ کو دے گا!

کلام کے حوالہ جات

گلتیوں ۵: ۲۲۔۲۳

کیونکہ روح کا پھل محبت، خوشی، اطمینان، تحمل، مہربانی، نیکی،اِیمانداری(وفاداری)،حلم ،پرہیز گاری ہے۔ ایسے کاموں کی کوئی شریعت مخالف نہیں۔

خدا کے پھلوں کی بڑھوتی کے لئے دُعا

پیارے خداوند،

تیرے قیمتی روح کے پھل کے لئے تیرا شکر ہو۔ہر روز میری مدد کر تاکہ میں تیری خوبیوں کو ظاہر کروں۔میں تیری مانند بننا  اور کام کرناچاہتا/چاہتی ہوں ۔اَے باپ مجھے اپنی محبت سے لبریز کردے۔میرے اندر بیان سے باہر خوشی ڈال دے۔میری مدد کر تاکہ میں لوگوں پر تیری مہربانی اور نیکی کو ظاہر کروں۔اے یسوع جیسا تو وفادار ہے میری بھی مدد فرما کہ میں بھی الہی ٰ وفا میں چل سکوں۔ اَے خداوند مجھے  حلیمی اور پرہیز گاری سے بھر دے۔یسوع کے قادر نام میں آمین۔

خدا آپ کا اطمینان ہے

 

خدا آپ کا اطمینان ہے

’’کسی بات کی فکر نہ کروبلکہ ہرایک بات میں تمہاری درخواستیں دُعا اورمنت کے وسیلہ سے شُکرگزاری کے ساتھ خُدا کے سامنے پیش کی جائیں۔ تو خُدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے تمہارے دِلوں اور خیالوں کو مسیح یسوع میں محفوظ رکھے گا۔‘‘ (فلپیوں ۴ : ۶۔ ۷)

اگرآپ کسی فیصلہ کے تعلق سے شدید پریشانی یا الجھاوٗ  کا شکار ہیں تو عین ممکن ہے کہ آپ خدا کی آواز سننے کے بجائے اپنے  خیالات میں پھنسے ہوئے ہیں۔بائبل فرماتی ہے کہ ’’خدا ابتری کا خدا نہیں ہے۔‘‘( ۱ کرنتھیوں ۱۴ : ۳۳)۔ وہ ابتری کا بانی نہیں ہے۔پس اگرآپ اپنی زندگی میں الجھاوٗ کا شکار ہیں تو آپ  کو جاننا چاہیے کہ یہ خدا کی آواز نہیں ہے۔

پچھلے ہفتے میں نے فیصلہ جات  اور اُن انتخابات کے تعلق سے کچھ تحریر کیا جو مسیحی کی حیثیت سے ہمیں کرنے پڑتے ہیں ۔ اور شاید سب سے اہم فیصلہ جو ہمیں کرنا پڑتا ہے  وہ خدا کی فرمانبرداری کا ہے۔جب  بھی آپ  خدا کی فرمانبرداری کے لئے تیار ہوتے ہیں تو اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ اوراگرآپ خدا کی فرمانبرداری سے انکار کرتے ہیں تو  ذرا ٹھہریں اور سوچیں کہ کیا  اس وقت بھی آپ کے دل میں حقیقی اطمینان  موجود رہتا ہے۔

ابلیس  چاہتا ہے کہ آپ  لاچاری اور مجبوری  کے تحت فیصلے کریں، لیکن خدا آپ  کو مہربانی (محبت)سے اپنی طرف مائل کرناچاہتا ہے۔ابلیس آپ  کی مجبوری  کا فائدہ اُٹھا کر  آپ کو گناہ میں دھکیلنا چاہتاہے۔ لیکن خدا آپ کا اچھا چرواہا ہےاس لئے وہ آپ کو اپنی نزدیکی اور  حقیقی اطمینان دینا چاہتا ہے۔

جس طرح ٹیلی وژن  نیٹ ورک  چلانے کے لئے  ٹی .وی .سگنل  کی ضرورت ہوتی ہے، اُسی طرح ہمیں روحانی  سگنل موصول ہوتے ہیں۔اور  جس طرح ہم مخصوص چینل دیکھنے کے لئے ٹیلی وژن سگنل کاچناوٗکرتے ہیں اسی طرح ہمارے پاس روحانی سگنل کا چناوٗ بھی موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ ’’آپ کون سا چینل دیکھ رہے ہیں؟‘‘’’آپ کس کی آواز سن رہے ہیں؟‘‘اگر آپ کو خدا کی طرف سے ہمیشہ منفی پیغامات موصول ہوتے ہیں  تو کچھ گڑ بڑ ہے۔سگنل ادَل بدل ہو چکے ہیں۔

ایک ہی ٹیلی وژن پر آپ دو  پروگرام ایک ساتھ نہیں دیکھ سکتے اور اِسی طرح آپ خدا اور دشمن کی آواز ایک ساتھ نہیں سن سکتے۔آپ کو کسی ایک کی آواز سننے کافیصلہ کرنا ہے۔ اگر آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ خدا آپ سے کچھ کہہ رہا ہے لیکن  اس کی وجہ سے آپ کی پریشانی میں اضافہ ہو گیا ہے تو کہیں گڑبڑ ہے۔میں آپ کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں کہ دعا کریں کہ خدا ا ن مخصوص حالات میں آ پ سے کلام کرے۔

اگر آج آپ پریشان ہیں اور شدید تناوٗ کا شکار ہیں اور حالات آپ کی توقع کے مطابق نہیں ہیں تو آپ کو ایک فیصلہ کرنا ہے،یا تو آپ حیرانی  سے سب کچھ بکھرنے کا انتظار کریں یا خدا پر ایمان اور بھروسہ کرنے کا فیصلہ کریں۔

ہم سب کو کسی نہ کسی  پریشانی اور تناوٗ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت کچھ لوگوں کو پسینہ آتاہے کچھ لوگ چِلاتے ہیں اور کچھ بالکل خاموش ہوجاتے ہیں۔ کیا آپ بھی مصائب  کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں؟کیا آپ مستقبل کے تعلق سے نااُمیدی کا شکار ہیں؟کیا آپ کو لگتا ہے کہ خدا بہت دُور ہے؟کیا آپ کو جسمانی علامات جیسے  سَر درد، ناخن چبانایا پیٹ میں گڑ بڑ محسوس ہوتی ہے؟کیا ناکامی اور شکستگی کو قبول کرنا آپ کے لئے مشکل ہے؟کیا آپ تھک چکے ہیں؟ کیا آپ کو فیصلہ کرنا مشکل لگتا ہے؟کیا مختلف واقعات آپ کے دماغ میں گھوم پھر  کرباربار واپس آتے ہیں؟یہ سب پریشانی اور تناوٗ کی نشانیاں ہیں۔

ہم سوچتے ہیں کہ  فکر  کرنا ہمارے لئے اچھّا ہے۔ کیونکہ اِس طرح کرنے سے ہمیں یاد رہتا ہے کہ کیا کرنا چاہیے اور ہم اپنے اگلے اقدام کا تعین کر سکتے ہیں ۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ یہ ہمارے فائدے کی چیز نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس پریشانی ہم پر حاوی ہو جاتی ہے ۔یہ ہماری خوشی کو چھین کر ہمارے تعلقات میں بگاڑ پیدا کرتی ہے۔جب تک ہمیں فکر کرنے کے علاوہ کوئی اچھا کام نہیں مل جاتا ہم فکرکرتے رہیں گے۔

آپ کس طرح پریشانی سے چھٹکارا پا سکتے ہیں؟ میں چاہتا ہوں کہ اس ہفتے آپ متی ۸ باب میں موجود کہانی پر غور کریں جہاں یسوع نے پریشانی کے تعلق سے کلام کیا ہے۔آپ ایمان سے حقیقت کا سامنا کرنا سیکھ لیں گے۔

!خدا آپ کے توڑوں اور نعمتوں کو استعمال کرتا ہے

خدا آپ کے توڑوں اور نعمتوں کو استعمال کرتا ہے!

پچھلے دو ہفتوں سے اسکول میں مطالعہ کے دوران میں نے محسوس کیا ہے کہ خدا مجھے  میری زندگی کےمقصد سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ  مجھے بتا رہا ہے کہ  اس کی بادشاہی اورجلال کے لئے نعمتوں کےاستعمال کی اہمیت اور ضرورت کیا ہے۔

میرا ایمان ہے کہ خدا نے جس لمحہ ہمیں چنا تھا اُسی لمحہ ہم میں سے ہر ایک کو نعمتیں اور توڑے بخش دیئے تھے (یرمیاہ ۱ : ۵ اور زبور ۱۳۹: ۱۶)۔خدا غلطیاں نہیں کرتا اور جو کچھ وہ تخلیق کرتااور کام کرتا ہے وہ اچھّا ہے۔آج میں آپ کو ابھارنا  چاہتا ہوں کہ اس مطالعہ کے دوران جو سوال میں آپ سے کروں آپ  دیانتداری سے غوروفکر کے بعد ان کاجواب دیں ۔

یہاں ٹھہریں اور پڑھیں متی ۲۵ : ۱۴۔۳۰

پہلا سوال:کیا آپ وقت  کو غنیمت جان کر اپنے توڑوں کو استعمال کرتے ہیں؟اس تمثیل میں مالک نے اپنے نوکروں کو ایک لمبے عرصہ کے لئے اپنی میراث سونپ دی۔ اس لمبے عرصہ کے دوران جو بھی انہوں نے کیا وہ اپنے مالک کو خوش کرنے اور عزت دینے کے لئے بہت لازمی تھا۔

خدا نے آپ کو بھی کوئی نہ کوئی توڑا  یا  نعمت عطا کی  ہوئی ہے۔وہ موسیقی، شفاعت کرنا، آرٹ،مضمون نگاری،کھیل،درس وتدریس وغیرہ ہوسکتا ہے۔ابھی آپ کے پاس وقت ہے کہ آپ فیصلہ کریں کہ آپ اپنے توڑوں اور نعمتوں کو کس طرح استعمال کریں  گے ۔جب خدا آپ کو کوئی توڑا دیتا ہے تووہ توقع کرتا ہے کہ آپ اس کو استعمال  بھی کریں۔یہ ہمارے جسم میں موجود پٹھوں اور عضلات کی مانند ہیں اگر آپ ان کو استعمال کریں گے تو یہ مضبوط ہوں گے اور  اگر آپ انہیں استعمال نہیں کریں گے تو یہ بے کار ہو جائیں گے۔اگر آپ کے پاس کوئی توڑا ہےاور آپ اس کواستعمال کرنے سے خوف زدہ ہیں یا اس کو استعمال کرنے میں سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں  توآپ اُسے کھو دیں گے۔ لیکن اگرآپ اپنے توڑوں کو سمجھداری کے ساتھ استعمال کریں گے تو خدا آپ کو اور دے گا۔

دوسرا سوال:کیا آپ اپنے توڑوں کو اچھے طریقہ سے استعمال کر رہے ہیں؟اس تمثیل میں پہلے دو نوکروں نے اپنے توڑوں کو اس توقع کے ساتھ استعمال کیا کہ ان سے اور کمائیں ۔تیسرے نوکر نے خوف کی وجہ سے اپنے توڑے کو چھپا دیا۔

میں بہت سے ایسے لوگوں  کو جانتا ہوں اور  ان سے ملا بھی ہوں جن میں  بزرگ اور جوان   دونوں شامل ہیں جنھوں نے اپنے توڑوں کو استعمال نہیں کیا؛اور میں اقرار کرتا ہوں کہ میں نے بھی ایسا کیا ہے۔ میں اس تمثیل میں موجود تیسرے نوکر کی مانند خوف زدہ تھا۔ مجھے یہ  معلوم نہیں تھا کہ میں ان توڑوں کو اچھے طریقہ سے استعمال کر کے ان کو بڑھا سکتا ہوں۔لیکن جب میں نے یہ جان لیا کہ مجھے یہ توڑے خدا نے  اپنی مرضی سے عنایت کئے  ہیں  اور مجھے ان کو اس کے معیار کے مطابق استعمال کرنا ہے۔ تو میں نے سوچا کہ میں نے کیوں ان نعمتوں اور توڑوں کو اب تک  اس کی بادشاہی اور جلا ل کے لئے استعمال نہیں کیا؟

خوف زدہ ہونا چھوڑ دیں!آج ہی فیصلہ کریں اور خدا کے معیار کے مطابق ان کو استعمال کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ہو سکتا ہے کہ شروع میں آپ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے لیکن ہم سب کبھی نہ کبھی ناکام ہو جاتے ہیں ہم گناہ بھری دنیا کے باسی ہیں۔ ناکام ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔دوسری بات یہ کہ ہمارا ذہنی رجحان ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اگر لوگ ہماری ستائش  کریں تو ہم آگے بڑھیں اور جب وہ ہمیں تنقید کا نشانہ بنائیں تو ہم سست ہو جائیں۔ ہمیں اپنے دل میں موجود خدا دادجوش اور سرگرمی سے آگے بڑھنا ہے ۔

آگے بڑھیں:

آپ اپنے توڑوں کوکس طرح استعمال کریں گے؟

۱۔       کسی پُرسکون جگہ پر جائیں اوراِن تین نوکروں کی زندگی، ان کے پاس موجود وقت اور مواقعوں  پر غورکریں۔ان کے پاس موقع تھا کہ کوئی  نیا اور عظیم کام کریں جو باعثِ برکت ہو۔آپ ان نعمتوں اور توڑوں کے تعلق سے سوچیں جو خدا نے آ پ کو عطا کی ہیں۔

۲۔     خدا نے آپ کو جو وقت اور مواقع دیئے ہیں آپ ان سے کس طرح فائدہ اٹھا رہے ہیں؟

۳۔     فیصلہ کریں: کیا آپ خوف میں زندگی بسر کریں گے یا دلیری سے؟

شادی کو قائم رکھنے کا راز کیا ہے

ایک شادی شدہ جوڑا کیا کر سکتا ہے؟  اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ ان کی شادی برقرار رہے۔ سب سے پہلی اور ضروری بات یہ ہے کہ ان کو خدا اور اس کے کلام کی فرمانبرداری کرنی چاہئے۔ یہ ایک اصول ہے جسےان کو اپنی شادی کے شروع ہونے سے پہلے اپنانا ہے۔ خدا کہتا ہے "اگر دو شخص باہم متفق نہ ہوں تو کیا وہ دونوں اکٹھے چل سکیں گے”؟ (عامُوس 3:3)۔ نئے سرے سے پیدا ہوئے ایماندار کے لئے اس کا مطلب یہ ہے کہ شادی اس شخص کے ساتھ شروع نہیں کرنی ہے جو ایماندار نہیں ہے۔ "بے ایمانوں کے ساتھ نا ہموار جوئے میں نہ جتو کیونکہ راستبازی اور بے دینی میں کیا میل جول؟ یا روشنی اور تاریکی میں کیا شراکت؟ (2 کرنتھیوں 14:6)۔ اگر تمام لوگ اس ایک اصول پر چلنے کا فیصلہ لیں گے تو آگے شادیوں میں کئی ایک درد دل مسائل، مصیبتوں اور پریشانیوں سے بچا جا سکتا ہے۔

دوسرا اصول جو شادی کو مسلسل قائم رکھنے میں نمایاں اہمیت رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ شوہر کو خدا کی فرمانبرداری، خدا کی عزت  اور خدا سے محبت رکھنے  کو اولین ترجیح دینی چاھئے۔ اور اُسے چاہئے کہ اپنی بیوی کی ویسی ہی حفاظت کرنی چاہئے جیسے اپنے بدن کی افسیوں5 : 25 – 31 )۔ اس کے جواب میں یہ اصول بھی نافذ ہوتا ہے کہ بیوی بھی خدا کی فرمانبردار ہواور شوہر کی ویسی ہی تابع رہے "جیسے خداوند کی” (افسیوں 22:5 )۔ ایک آدمی اور عورت کے بیچ شادی، مسیح اور کلیسیا کے درمیان تعلقات کی ایک تصویر ہے۔ مسیح نے خود کو کلیسیا کے لئے دے دیا، اور وہ اس سے محبت رکھتا، اس کی عزت کرتا اور اپنی "دلہن” کی مانند اس کی حفاظت کرتا ہے (مکاشفہ 19 : 7 – 9 )۔

دینداروں جسی  شادی کی بنیاد تعمیر کرتے ہوئے کئی ایک جوڑے عملی طریقے اپناتے ہیں جن سے اپنی شادیاں برقرار رکھنے میں ان کی مدد ہو سکے: دونوں مل کر یہ کہتے ہوئے اپنا قیمتی وقت گزارتے ہیں، مثال کے طور پر ایک دوسرے سے یہ کہنا کہ میں تم سے سچ مچ پیار کرتا / کرتی ہوں؛ اکثر مہربانی کے احساس کے ساتھ ؛ جسمانی کیفیت یا رغبت ظاہر کرتے ہوئے؛ تعریف کرتے ہوئے، مقررہ وقت پر پکنک منانے یا باھرجاتے ہوئے؛ شکریہ کا نوٹ لکھتے ہوئے؛ گلدستہ اور تحفہ تحائف بھیجتے ہوئے اور معافی کے لئے تیار رہتے ہوئے وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام عمل شوہروں اور بیویوں کے لئے بائبل کی تعلیم میں شامل کئے گئے ہیں۔

پہلی شادی میں جب خدا حوا کو آدم کے پاس لے آیا تھا تو وہ آدم کے "گوشت اور ہڈی” سے بنائی گئی تھی (پیدائش 21:2)۔ اور وہ دونوں "ایک جسم” ہو چکے تھے (پیدائش 2 : 23 – 24 )۔ ایک جسم ہونے کا مطلب ہے ایک جسمانی اتحاد سے بڑھ کر ہونا۔ اس کا مطلب جان اور نفس (قلبی کیفیت) کا ایک اکائی میں مل جانا۔ یہ رشتہ نفسانی یا شہوانی یا جذباتی کشش اور روحانی دنیا کی "یکتائی” سے بھی بہت آگے جاتا ہے جو کہ صرف جوڑوں میں تب ہی دیکھا جا سکتا ہے جب وہ دونوں خود کو خدا کے ہاتھوں میں ایک دوسرے کے لئے سونپتے ہیں۔ اس رشتہ کا مرکز "مجھے اور میرا” نہیں ہے بلکہ "ہمیں اور ہمارا” ہے۔ یہ شادی کے برقرار رہنے کے کئی راز میں سے ایک راز ہے۔

عمر بھر کے لئے شادی کو برقرار رکھنا ایسا ہے جس میں دونوں ساتھیوں کو خود فوقیت لینی پڑتی ہے۔ جوڑے جن کی شادیاں برقرار رہتی ہیں وہ ایک دوسرے کی کامیابیوں کو مناتے ہیں۔ کئی جوڑے ایسے ہیں جو غصہ کی حالت میں بھی کبھی طلاق کی بات نہیں کرتے یا آپس کی رضامندی سے تھوڑے عرصے کےلئے  الگ ہونے کا فیصلہ کرتےہیں۔ خدا کے ساتھ سیدھے اور صحیح رشتہ کو مضبوط کرتے ہوئے ایک شوہر اور بیوی کے بیچ کا رشتہ متوازی طور سے پکا کرتے ہوئے ایک لمبی دوری طے کرتے ہیں۔ جسے شادی کا قائم رھنا کہتے ہیں اور اس سے خدا کی عزت افزائی ہوتی ہے۔

ایک جوڑا جو خواہش رکھتا ہے کہ ان کی شادی تا زندگی برقرار رہےانہیں سیکھنا چاہئے کہ کس طرح اپنے مسائل اور پریشانیوں سے نپٹیں۔ دعا، بائبل کا مطالعہ اور آپسی حوصلہ افزائی یہ اچھی بات ہے اور باہری مدد کی تلاش کرنے میں بھی کوئی برائی نہیں ہے۔ در اصل کلیسیا کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ "محبت اور نیک کاموں کی ترغیب دینے کے لئے ایک دوسرے کا
لحاظ رکھیں (عبرانیوں 24:10 )۔ ایک کشمکش کرنے والے جوڑے کو اپنے سے بڑی عمر کے مسیحی جوڑے سے، پادری سے یا شادی سے متعلق مسیحی صلاح کار سے نصیحت لینی چاہئے۔ تاکہ شادی بابرکت اور قائم رہے۔

مسیحی زندگی میں گناہ پر فتح پانے کا راز


     مسیحی زندگی میں گناہ پر فتح حاصل کرنے کے لئے کلامِ پاک ہماری مدد کے ذرائع پیش کرتا ہے۔ اس زندگی کے ایام میں ہم کبھی بھی کامل طور سے گناہ پر فتحمند ثابت نہیں ہو پائیں گے (Iیوحنا8:1)۔ مگر اس کے باوجود بھی اس بات کے لئے ہمارا ایک نشانہ، مقصد ضرور ہونا چاہئے۔  کہ خدا کی مدد کے ساتھ، اور اس کے کلام کے اصولوں پر چلتے ہوئے ہم رفتہ رفتہ گناہ پر فتح حاصل کر سکتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ مسیح کی مانند بن سکتے ہیں۔ گناہ پر فتح حاصل کرنے کی کوشش میں پہلا ذریعہ جو کلامِ پاک پیش کرتا ہے وہ ہے روح القدس۔ خدا نے ہم کو روح القدس عنایت کیا ہے کہ ہم اپنی مسیحی زندگی میں اس کے ذریعہ گناہ پر فتح حاصل کر سکتے ہیں۔( گلتیوں 16: 5 -25) میں خدا ہمارے جسم کی کاموں کو روح کے پھلوں سے موازنہ کرتا ہے۔ اُس عبارت میں کہا گیا ہے کہ ہم کو روح کی ھدایت میں چلنے کے لئے بلایا گیا ہے۔ ویسے تو تمام ایمانداروں میں روح القدس پہلے سے ہی سکونت کرتا ہے مگر یہ آیات ہم سے کہتی ہیں کہ ہم کو روح کے قابو میں رہتے ہوئے اس میں چلتے رہنے کی ضرورت ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہم کو اپنی زندگیوں میں روح القدس سے تحریک لیتے ہوئے لگاتار اس کے پیچھے چلتے رہنا چاہئے بجائے اس کے کہ جسمانی خواہشوں کے پیچھے چلیں۔

     روح القدس کے میں زندگی اور جسم میں زندگی کا فرق پطرس کو اُسکی زندگی میں تب معلوم ہوا تھا جب اس نے روح القدس سے بھرے جانے سے پہلے تین مرتبہ مسیح کا انکار کیا تھا۔ ایک دفعہ گفتگو کے دوران پطرس نے یسوع مسیح سے کہا تھا کہ چاہے مجھے اپنی جان بھی دینی پڑے میں تیرا انکار نہیں کروں گا۔ مگر جب پنتکست کا دن آیا تو اس نے روح سے بھر کر علانیہ طور سے دلیری کے ساتھ ایسی تقریر کی کہ 3000 لوگ اس سے متاثر ہوئے اور مسیح پر ایمان لائے۔

    جس طرح پہلا تھسلنیکیوں19:5 میں کہا گیا ہے جب ہم روح میں چلتے اور اس کو رنجیدہ کرکے بجھانے کی کوشش کبھی نہ کریں بلکہ اس کے مقابلے میں ہم سے کہا گیا ہے روح القدس سے معمور ہوتے جاو (افسیوں 5: 18- 21)۔ یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ ایک شخص روح القدس سے کیسے معمور ہوتا ہے؟ سب سے پہلے یہ خدا کے چنائو سے ہوتا ہے یہاں تک کہ پرانے عہد نامے میں بھی خدا کے لوگ روح القدس سے بھرے گئے تھے۔ خدا نے شخصی طور سے لوگوں کو کسی خاص کام کے لئے چنا اور ان کو روح سے معمور کیا تاکہ اس کے کام کو پورا کیا جائے دیکھیں (پیدائش38:41؛ خروج 3:31؛ گِنتی 2:24؛ 1 سموئیل 10:10)۔ (افسیوں 18: 5- 12) اور کلیسوں 16:3 میں یہ ثبوت پایا جاتا ہے کہ خدا ان لوگوں کو روح سے معمور کرنے کے لئے چنتا ہے جو خود خدا کے پیچھے چلنے اور اُسکے کلام سے معمور ہونے کے خواھش مند رہتے ہیں۔ کلام خدا ہم کو گناہ پر فتح حاصل کرنے کے دوسرے ذرائع کی طرف بھی راہنمائی کرتا ہے۔

      خدا کا کلام بائیبل کہتی ہے کہ خدا نے اپنا کلام ہم کو دیا ہے تاکہ ہم ہر ایک نیک کام کے لئے تربیت حاصل کریں (2 تِیمتھیس 16 :3 -17 )۔ یہ آیات ہم کو تعلیم دیتی ہیں کہ کس طرح زندگی جئیں اور کن باتوں پر یقین کریں۔ یہ ہم پر ظاہر کرتی ہے کہ جب ہم غلط راستہ اختیار کرتے ہیں تو یہ ہماری مدد کرتی ہیں صحیح راستے پر واپس آجائیں اور اس پر قائم رہیں۔ عبرانیوں 12: 4 میں لکھا ہے کہ خدا کا کلام زندہ اور طاقتور ہے۔ اس میں اس طرح لکھا ہے کہ ’’کیونکہ خدا کا کلام زندہ اور مؤثر ہے اور ہر ایک دودھاری تلوار سے زیادہ تیز ہے اور جان اور روح کو جدا کرکے گزر جاتا ہے اور دل کے خیالوں اور ارادوں کو جانچتا ہے۔‘‘ زبور نویس بیان کرتا ہے کہ خدا کے کلام میں مکمل طور سے زندگی بدلنے کی قوت موجود ہے (زبور 119)۔ موسیٰ کی وفات کے بعد یشوع کو کہا گیا کہ اگر اس کو دشمنوں پر غالب آنا ہے اور کامیابی حاصل کرنی ہے تو شریعت کی کتاب کو نہ بھُولے بلکہ دن اور رات اس کا دھیان اس کتاب کی باتوں پر رہے اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اس پر احتیاط کرکے عمل کرتا رہے۔ سو یشوع نے ایسا ہی کیا اور جو کچھ خدا نے اسے حکم دیا تھا ویسا ہی کیا۔ ویسے تو فوجیوں کے لئے دیگر قانون ہوتے ہیں مگر یشوع کے لئے یہ خدا کا قانون تھا کہ اس کے کلام پر توجہ دے تاکہ وہ لڑائیاں جیت کر وعدہ کئے ہوئے ملک میں بنی اسرائیل قوم کو لے کر جاسکے۔

   خدا کا کلام بائبل ایک ایسا ذریعہ ہے جسے ہم اکثر معمولی طور پر لیتے ہیں۔ یا ہلکے طور پر لیتے ہیں۔ چرچ جاتے وقت بائبل کو ہم ایک نشانی کےطور پر لے کر جاتے یا روزانہ اس کو گیان دھیان کرنے کےلئے اس کے ایک باب کو یا کچھ آیتوں کو پڑھ لیتے ہیں مگر اس کو حفظ کرنے یا غور و فکر کرنے میں ناکام رہ جاتے ہیں۔ جب حفظ کرنے میں ناکام رہ جاتے ہیں تو اس کو اپنی زندگی کیا خاک عملی جامہ پہنائیں گے؟ سو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کلامِ پاک بائبل جو ہمارے گناہوں کے لئے آئینہ دکھاتی ہے اُن کا اقرار کرنے میں بھی ناکام ہو جاتے ہیں اور یہ بھی ہوتا ہے کہ خدا نے جو نعمتیں ہم کو عطا کی ہیں ان کے لئے خدا کا شکر ادا کرنا یا حمد و ستایش بھول جاتے ہیں۔ ہماری رغبت و رجحان کلام کی طرف کم  ہو جاتی ہے یا پھر ایسے شخص بن جاتے ہیں جسے کھانے پینے کی تمنا ہی ختم ہوگئی ہو۔ مطلب یہ کہ وہ شخص جس میں کلام کی بھوک نہ ہو۔ خدا کے کلام میں سے ہم اتنا ہی اپنے باطن میں لیتے ہیں جتنا کہ روحانی طور سے زندہ رہ سکیں مگر کبھی بھی اتنا نہیں لیتے جس سے کہ روحانی صحت و تندرستی برقرار رہے۔ یا جس سے کہ روحانی ترقی اور باطن میں زور آور ہوں۔ ہم کو پھلنے پھولنے والے اور روحانیت میں سورما بننے والے مسیحی بننے کی ضرورت ہے۔ ہم کھا تو لیتے ہیں مگر جگالی نہیں کرتے۔ مطلب یہ کہ ہم کلام کا مطالعہ تو کرتے ہیں مگر اس پر دھیان سوچ و بچار نہیں کرتے کہ وہ ہمارے دل و دماغ میں ایک لمبے عرصے تک بیٹھا رہے تاکہ اس سے ہمیں روحانی قوت حاصل ہوتی رہے۔

    یہ بہت ہی ضروری ہے۔ اگر آپ نے خدا کے کلام کا مطالعہ اور اُسے روزانہ حفظ کرنے کی عادت نہیں ڈالی ہے تو آج سے ایک نئی شروعات کریں۔ ایک ڈائری کا استعمال کریں، ایک عادت سی بنالیں کہ جب تک آپ کو کلام میں سے کچھ حاصل نہ ہو تب تک اُس کا مطالعہ جاری رکھیں گے۔ پھر جو کچھ آپ نے حاصل کیا اس کو تاریخ کے ساتھ نوٹ کرلیں۔ اسی ڈائری میں دعا کی فہرست لکھیں کہ کس کے لئے اورکس پریشانی کے لئے دعا کرنی ہے اور جب آپ کو ان کا جواب مل جاتا ہے تو خدا کا شکریہ ادا کریں۔ بائیبل ایک اوزار کےطور ہے جس کو روح القدس ہماری زندگیوں کے لئے استعمال کرتا ہے۔ (افسیوں6:17)۔ بائیبل خدا کے ہتھیاروں میں سے ایک بڑا اور لازمی ہتھیار ہے جو روحانی جنگ لڑنے کے لئے خدا ہمیں دیتا ہے (افسیوں12: 6 -18)۔

    گناہ کے خلاف ہماری جنگ میں ایک تیسرا فیصلہ کن ذریعہ ہے دُعا۔ اس کو پھر سے بتایا جا رہا ہے کہ مسیحی لوگ اکثر ان کو ہونٹوں کی قربانی بطور استعمال کرتے مگر بہت ہی قلت کے ساتھ۔ جیسے کہ اُن پر کوئی دبائو ڈال رہا ہو۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ ہماری کلیسیاوں میں دُعائیہ میٹنگ ہوتی ہیں۔ یہ کسی گھر پر یا کلیسیا کی عمارت میں کہیں پر ہوتی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اس میں کتنے لوگ حاضر رہتے ہیں۔ بہت کم۔ جس طرح ابتدائی کلیسیاوں میں دعائیں ہوتی تھیں لوگ

  بلاناغہ روزانہ روح میں ہوکر دُعا اور عبادت کرتے تھے۔ اب اس طرح مسیحی لوگ دعائیں نہیں کرتے (اعمال کی کتاب تیسرا چوتھا باب)۔ پولس بار بار اپنے خطوں میں اس بات کا ذکر کرتا ہے کہ اس نے کس طرح خدا کے خادموں کے لئے دعائیں کیں۔ خدا نے دعا کی بابت یا دعا سے متعلق اپنے کلام میں کئی ایک عجیب و غریب وعدے کئے ہیں۔ مثال بطور (متی 7:11-7؛ لوقا 8:1-18؛ یوحنا  23: 6 -27)، اور پولس افسیوں 18:6 کی آیت میں اس بات کو کہہ کر شامل کرتا ہے کہ دعا روحانی جنگ کی تیاری طور پر ہے۔

    ہماری زندگیوں میں گناہ پر فتح حاصل کرنے کے لئے دعا کتنی اہمیت رکھتی ہے؟ گتسمنی کے اس واقعہ کو تصور کریں یہ واقعہ پطرس کی انکاری سے پہلے تھا۔ پطرس اس وقت سو رہا تھا تو یسوع مسیح نے جگا کر اس سے کہا جاگو اور دعا کرو تاکہ تم آزمائش میں نہ پڑو، روح تو مستعد ہے مگر جسم کمزور ہے (متی41:26)۔ ہم بھی پطرس کی طرح وہی کرتے ہیں جو ہماری نظر میں صحیح ہوتا ہے۔ مگر دعا میں جو اصلی طاقت اور قوت ہوتی ہے اس کو نہیں آزماتے۔ ہمیں خدا کی ہدایت میں چلنے کی ضرورت ہے لگاتار ڈھونڈتے رہنے کی، لگاتار کھٹکھٹاتے رہنے کی، لگاتار مانگتے رہنے کی ضرورت ہے۔ اور وہ ہمیں قوت دیتا ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے (متی 7:7)۔ دعا کوئی جادوئی نسخہ نہیں ہے۔ بلکہ دعا تو صرف ہماری اپنے محدود پن کو خدا کے سامنے لانا  ہوتا ہے اور تب خدا کی بے پناہ قوت ہم میں ہوکر کام کرنے لگتی ہے اور ہم ان کاموں کو انجام دینے لگتے ہیں جنہیں خدا چاہتا ہے نہ کہ جو ہم نے چاہا ہے (یوحنا 5 :14- 15)۔

   چوتھا ذریعہ جو گناہ پر فتح پانے کی ہماری جنگ ہے وہ کلسیا ہے، یعنی کہ دوسرے ایمانداروں کی رفاقت۔ جب یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو باہر منادی کے لئے بھیجا تو اس نے انہیں دو دو کرکے بھیجا (متی 1:10) اعمال کی کتاب میں جو مشنری تھے وہ سب ایک ہی وقت میں ایک ایک کرکے نہیں گئے تھے۔ بلکہ وہ دو دو کرکے یا دو سے زیادہ جماعت کےطور جاتے تھے۔ یسوع ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم آپس میں ایک دوسرے سے ملنا نہ چھوڑیں بلکہ ہم اس وقت ایک دوسرے کو حوصلہ افزائی کرنے اور نیک کام کرنے میں گزاریں (عبرانیوں24:10)۔ وہ ہم سے کہتا ہے کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے اپنے اپنے گناہوں کا اقرار کرو۔ اور ایک دوسرے کے لئے دعا کرو (یعقوب 16:5)۔ پرانے عہد نامے کی دانش مندی کی تصنیف (امثال کی کتاب) میں ہم سے کہا گیا ہے کہ ’’جس طرح لوہا لوہے کو تیز کرتا ہے اُسی طرح آدمی کے دوست کے چہرہ کی آب اُسی سے ہے۔‘‘ (امثال16:27) 

   کئی ایک مسیحی اس بات کو جانتے ہیں کہ ہر ایک ایماندار کا ایک ایسا ضامن ہونا چاہئے جس کو بوقت ضرورت اور عام زندگی میں بھی اپنی باتیں بتاکر راھنمائی پاسکیں۔ وہ آپ کا دوست، آپ کا بھائی، آپ کی بہن کوئی بھی ہو سکتا ہے یا ہو سکتی ہے۔ اس شخص کے ہونے سے بھی ہم اپنے عادی گناہ پر غالب آسکتے ہیں۔ وہ دوسرا شخص آپ کے ساتھ بات چیت کر سکتا ہے، آپ کے ساتھ دعا کر سکتا ہے، آپ کو حوصلہ دے سکتا ہے، یہاں تک کہ وہ آپ کو ڈانٹ پھٹکار بھی کر سکتا ہے۔ آزمائش کے وقت وہ آپ کو روک بھی سکتا ہے۔ سو آزمائش ہم سب کے لئے ایک عام بات ہے (1 کرینتھیوں 13:10)۔ آپ کا وہ ضامن شخص ساتھی یا ضامن کلسیا میں ہماری حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں یا تحریک دے سکتا یا دے سکتی ہے اور ہم کو اپنے گناہ سے یہاں تک کہ سب سے زیادہ ضدی گناہ پر فتح پانےمیں مددگار ہو سکتے ہیں۔

   کبھی کبھی ہم بہت جلد گناہ پر فتح پا لیتے ہیں۔ دیگراوقات میں یہ بہت آہستہ سے ہوتا ہے۔ خدا نے وعدہ کیا ہے کہ جب ہم اِن ذرائع کا استعمال کرتے ہیں تو وہ بہت جلد روحانی ترقی کے ساتھ ہماری زندگیوں میں تبدیلی لے کر آئے گا۔ ہم اپنی کوششوں میں ثابت قدم رہنے کے ذریعے گناہ پر فتح حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ خدا اپنے وعدوں میں وفادار ہے اور سچا ہے ( گنتی 19:23 )۔

آزمائش پر کیسے غالب آیا جائے

     کلامِ مقدس میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ ہم سب کو آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔پہلا کرنتھیوں 10 : 13 میں یوں مرقوم ہے کہ ’’تم کسی ایسی آزمائش میں نہیں پڑے جو انسان کی برداشت سے باہر ہو…‘‘یہ آیت ہماری حوصلہ افزائی کرتی ہے کیونکہ ہم اکثرایسا محسوس کرتے ہیں کہ دنیا میں ساری آزمائشیں صرف ہمارے ہی لئے ہیں۔’’کیونکہ ہمارا ایسا سردار کاہن نہیں جو ہماری کمزوریوں میں ہمارا ہمدرد نہ ہو سکے بلکہ وہ سب باتوں میں ہماری طرح آزمایا گیا تو بھی بے گناہ رہا۔‘‘(عبرانیوں 4 : 15)

     یہ آزمائشیں کہاں سے آتی ہیں؟سب سے پہلے تو یہ خدا سے نہیں آتیں، البتہ وہ ان کو آنے دیتا ہے۔ یعقوب 1 : 13 میں بیان ہے کہ ’’…کیونکہ نہ تو خدا بدی سے آزمایا جا سکتاہے اور نہ وہ کسی کو آزماتا ہے۔‘‘ ایوب کے پہلے باب میں خدا نے شیطان کو اجازت دی کہ وہ ایوب کو آزمائےلیکن اس کے ساتھ حدود مقرر کر دیں۔ابلیس زمین پر شیرببر کی طرح دھاڑتا پھرتا ہے کہ کس کو پھاڑ کھائے (1 پطرس 5 : 8)۔ آیت 9 میں بیان ہے کہ ہمیں اس کا مقابلہ کرنا ہے یہ جان کر کہ دوسرے مسیحی بھی اسی طرح دکھ اٹھا رہے ہیں۔ ان حوالہ جات سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ آزمائش ابلیس کی طرف سے آتی ہے۔یعقوب 1 : 14 میں ہم دیکھتے ہیں کہ آزمائش ہمارے دل میں بھی جنم لیتی ہے۔ہم آزمائے جا تے ہیں جب ہم ’’اپنی خواہش میں کھنچتے اور پھنستے ہیں (آیت14 )۔ ہم بدی کی باتوں پر غور کرتے، ایسی جگہوں پر جاتے ہیں جہاں ہمیں نہیں جانا چاہیے،اوراپنی خواہشوں کے مطابق فیصلے کرتے ہیں جن سے ہم آزمائشوں میں پھنس جاتے ہیں۔

     ہم کس طرح آزمائشوں کا مقابلہ کریں؟ سب سے پہلے ہمیں یسوع کے نمونہ پرغور کرنا ہے جب متی 4 : 1۔11 میں وہ بیابان میں ابلیس سے آزمایا گیا۔اس نے ابلیس کی ہرآزمائش کے جواب میں کہا ’’لکھا ہے‘‘اور پھر کلام کا حوالہ پیش کیا۔جب کہ آزمائشوں پر غالب آنے کے لئے خدا کے بیٹے نے خدا کے کلام کو استعمال کیا اور ابلیس اس کے پاس سے چلا گیا(آیت 11) تو ہمیں کس قدر آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے کلام کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے؟اگر ہم  پاک روح کی قوت ،کلام کے مطالعہ اور اس پر گیان دھیان کے بغیر مقابلہ کریں گے تو ہماری ہر کوشش بے کار ہوگی۔’’عقل نئی ہو جانے سے اپنی صورت بدلتے جاوٗ‘‘(رومیوں 12 : 2 )۔’’روح کی تلوار جو خدا کا کلام ہے ‘‘(افسیوں 6: 17) آزمائش کے خلاف واحد ہتھیار ہے۔ کلسیوں 3 : 2 میں بیان ہے کہ ’’عالم بالا کی چیزوں کے خیال میں رہو نہ کہ زمین پر کی چیزوں کے۔‘‘اگر ہمارے ذہن تازہ ترین ٹی.وی.پروگراموں،موسیقی اور جدید فیشن کی طرف متوجہ رہیں گے تو ہمارے ذہن میں ایسی باتوں اور تصورات کی یلغار ہو گی جو ہمیں شہوانی خواہشات کی طرف کھینچ لیں گے۔ لیکن اگر ہمارے ذہن خد اکی عظمت اور اس کی پاکیزگی، مسیح کے رحم اور محبت اور بےعیب کلام سے منعکس ہونے والی روشنی سے معمور ہوں گے تو دنیا کی خواہشیں ہمارے اندر آہستہ آہستہ دم توڑتی جا ئیں گی۔ لیکن اگر خدا کا کلام ہمارے دلوں میں نہیں ہوگا تو ہم ابلیس کے حملوں کا شکارہو جائیں گے۔

     اپنے دلوں اور خیالوں کو آزمائشوں سے محفوظ رکھنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہم مسیح کے ان الفاظ کو یاد رکھیں جو اس نے باغِ گتسمنی میں اپنے شاگردوں سے اس وقت  کہے جب وہ دکھ اٹھانے کو تھا:’’جاگو اور دعا کرو تاکہ آزمائش میں نہ پڑو، روح تو مستعد ہے لیکن جسم کمزور‘‘ (متی 26 : 41 )۔ بہت سے مسیحی جان بوجھ کرتو گناہ کے سمندر میں غوطے نہیں کھاتے تو بھی چونکہ ہمارا جسم اتنا مضبوط نہیں ہے اس لئے ہم اس میں گر سکتے ہیں۔ بعض اوقات ہم اپنے آپ کو ایسے حالات میں ڈال دیتے ہیں یا اپنے ذہنوں کو شہوانی خیالات سے بھرلیتے ہیں جس کی وجہ سے ہم گناہ میں گرجاتے ہیں۔

     ہمیں رومیوں 12: 1۔2 کے مطابق اپنی سوچوں کو بدل کر نیا بنانا ہے۔ ہماری سوچیں اور عمل دنیا سے الگ ہونا چاہیے۔ امثال 4 : 14۔15 میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ ’’شریروں کے راستہ میں نہ جانااوربرے آدمیوں کی راہ میں نہ چلنا۔اس سے بچنا۔اس کےپاس سے نہ گزرنا۔اس سے مڑ کر آگے بڑھ جانا۔‘‘ہمیں دنیا کی اس راہ سے بچنا ہے جوہمیں آزمائش میں ڈال سکتی ہے کیونکہ جسم کمزور ہے۔ ہم آسانی سے اپنی خواہشوں میں پھنس سکتے ہیں۔

    متی 5 : 29 میں ایک بہترین نصیحت کی گئی ہے۔’’پس اگر تیری دہنی آنکھ تجھے ٹھوکر کھلائے تو اسے نکال کر اپنے پا س سے پھینک دے کیونکہ تیرے لئے یہی بہتر ہے کہ تیرے اعضا میں سے ایک جاتا رہے او رتیرا سارابدن جہنم میں نہ ڈالا جائے۔‘‘یہ بہت سخت بات ہے!گناہ اتنا بھیانک ہے!یسوع کے کہنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنے بدن کے اعضا کاٹ کاٹ کر پھینکنا شروع کردیں۔آنکھ نکال کر پھینک دینا ایک انتہائی اقدام ہے اور ا سکے معنی یہ ہیں کہ اگر ضرورت ہو تو گناہ سے بچنے کے لئے ہمیں انتہائی قدم اٹھانے کے لئے تیار رہنا چاہیے۔

خوف کے بارے میں بائبلی تعلیم

     تمام انسانوں کو اپنی زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر خوف کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے۔ ماہر نفسیات خوف کی کئی اقسام کا ذکر کرتے ہیں لیکن بائبلی تعلیم میں بائبل خوف کی دو اقسام کے متعلق بیان کرتی ہے۔ایک قسم جوفائدہ مند ہے اور اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔دوسری قسم نقصان دہ ہے اور اس کو قابو میں کرنا چاہیے۔ پہلی قسم کا خوف خدا کا خوف ہے۔ اس کا ہرگزمطلب کسی چیز سے ڈرنا نہیں ہے۔اس کے برعکس اس سے مراد خدا کا مودبانہ خوف؛اس کی قدرت اور جلال کی عزت وتکریم کرنا ہے۔دوسرے الفاظ میں خداوند کے خوف سےمراد خد اکے وجود کو تسلیم کرناہے جو خُدا کی ذات کو اور اس کی خوبیوں کو جاننے سے پیدا ہوتا ہے۔

     خداوند کے خوف سے بہت سی برکات اورفائدے حاصل ہوتے ہیں۔اس کا انجام حکمت اور فہم کا حصول ہے (زبور 111: 10)۔ احمق حکمت اور تربیت کی حقارت کرتے ہیں(امثال 1 : 7)۔اس کے علاوہ خداوند کا خوف زندگی،آرام،اطمینان اور تسلی بخشتا ہے (امثال 19: 23) اورہماری محفاظت  اور پناہ گاہ ہے(امثال 14: 26)۔

  پس ہم دیکھ سکتے ہیں کہ خدا کے خوف کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔بہرحال دوسرے قسم کا خوف جس کا بائبل ذکر کرتی ہے کسی صورت بھی فائدہ مند نہیں ہے۔یہ 2 تمیتھیس 1 : 7 کے مطابق ’’دہشت کی روح‘‘ ہے:’’کیونکہ خدا نے ہمیں دہشت کی روح نہیں بلکہ قدرت اور محبت اور تربیت کی روح دی ہے۔‘‘(این۔کے۔جے۔وی ترجمہ)۔خوف اور شرمندگی کی روح خدا کی طرف سے نہیں ہے۔

    تو بھی بعض اوقات ہم خوف زدہ ہو جاتے ہیں،بہت دفعہ یہ ’’خوف کی روح‘‘ ہم پر حاوی ہو جاتی ہے،اور اس پر غالب آنے کے لئے ہمیں خدا پر مکمل بھروسے اور اس سے پورے طور پر محبت کرنے کی ضرورت ہے۔’’محبت میں خوف نہیں ہوتا بلکہ کامل محبت خوف کو دور کر دیتی ہے کیونکہ خوف سے عذاب ہوتا ہے اور کوئی خوف کرنے والا محبت میں کامل نہیں ہوا۔‘‘

(1 یوحنا 4 : 18)۔خدا جانتا ہے کہ کوئی بھی کامل نہیں ہے۔اسی لئے اس نے بائبل کے ہر حصہ میں خوف کی حوصلہ شکنی کی ہے۔پیدایش کی کتاب سے مکاشفہ کی کتاب تک خدا ہمیں یاد دلا تا ہے کہ ’’خوف نہ کر‘‘۔

     مثال کے طور پریسعیاہ 41 : 10 میں ہماری حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ ’’تومت ڈرکیونکہ میں تیرے ساتھ ہوں۔ہراساں نہ ہو کیونکہ میں تیرا خدا ہوں،میں تجھے زور بخشوں گا۔ میں یقیناً تیری مدد کروں گا۔ اور اپنی صداقت کے دہنے ہاتھ سے تجھے سنبھالوں گا۔‘‘ ہم اکثر اپنے مستقبل کے بارے میں خوف زدہ رہتے ہیں کہ ہمارا کیا بنے گا۔ لیکن یسوع نے ہمیں جتا دیا ہے کہ وہ خدا جو ہوا کے پرندوں کی فکر کرتا ہے  اپنے فرزندوں کو کیوں نہ کھلائے گا؟’’پس فکر نہ کرو؛تمہاری قدر تو بہت سی چڑیوں سے زیادہ ہے‘‘(متی 10: 31)۔ان چند آیات میں بہت سی اقسام کے خوف کے بارے میں کلام کیا گیاہے۔خدا نے ہمیں کہہ دیا ہے ہم تنہائی،کمزوری،رد کئے جانے،ضروریاتِ زندگی کے بارے میں خوف زدہ نہ ہوں۔ بائبل کے تمام حصوں میں ہمیں یہ نصیحتیں ملتی ہیں جن میں ’’خوف کی روح ‘‘ کے بہت سے پہلوں کے خلاف کلام کیا گیا ہے۔

      زبور 56: 11 میں زبور نویس بیان کرتا ہے کہ ’’میرا توکل خدا پر ہے۔ میں ڈرنے کا نہیں۔انسان میرا کیا کر سکتا ہے؟‘‘یہ خدا پر بھروسہ کرنے کی عظیم گواہی کی قدرت ہے۔ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں زبور نویس خد ا ہی پر  بھروسہ کرے گا کیونکہ وہ خدا کی قدرت سے واقف ہے۔ پس خوف پر غالب آنے کی کنجی خدا پر مکمل  او پورا بھروسہ کرنا ہے۔ خدا پر بھروسہ کرنے کا مطلب خوف کے سامنے سر جھکانےسے انکار ہے۔اس کا مطلب زندگی کے تاریک ترین وقت میں بھی خد اکی طرف رجوع کرنا اور حالات کے درست ہونے کے لئے اس پر بھروسہ کرنا ہے۔ یہ ایمان خدا او راس کی بھلائی کو جاننے سے پیدا ہوتا ہے۔ جیسا کہ ایوب کہتا ہے جو بائبل میں بیان کردہ سخت آزمائش کے بہت سےادوارمیں سےایک دورمیں سےگزر رہا تھا کہ ’’دیکھو وہ مجھے قتل کرے گا…تو بھی میں اس پر بھروسہ کروں گا‘‘ (ایوب 13 : 15) (این.کے .جے. وی. ترجمہ)۔

    جب ہم خدا پر بھروسہ کرنا سیکھ جائیں گے،تو ہم اپنے راستہ میں آنے والی کسی چیزسے نہیں ڈریں گے۔ہم زبور نویس کی مانند ہوں گے جس نے کہا کہ ’’لیکن وہ سب جو تجھ پر بھروسا رکھتے ہیں شادمان ہوں۔وہ سدا خوشی سے للکاریں کیونکہ تو ان کی حمایت کرتا ہے۔اور جو تیرے نام سے محبت رکھتے ہیں تجھ میں شاد رہیں۔‘‘ (زبور 5 : 11)۔

  بائبل کس نے لکھی؟ 

بائبل کس نے لکھی‘‘ ایک ایسا سوال ہے جسے بلا شبہ بے شمار لوگ پوچھتے ہیں،جو اُس تاثر سے واقف ہیں جو پوُری دنیا کے  لوگوں پر بائبل نے چھوڑا ہے ۔ بائبل ہمیں زندگی سے ابدئیت تک کے سفر میں رہنمائی مہیا کرتی ہے اور ساتھ ہی کائنات کے خُدا سے تعلق قائم کرنے کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ ایک تاریخی کتاب ہے جِس کی پشت پناہی علمِ الآثار ِ قدیمہ کرتا ہے ، اور یہ نبوت کی وہ کتاب ہے جو اپنے تمام بیانات پر اب تک ہمیشہ سے پوُرا اُترتی رہی ہے۔ اِن حقائق کی روشنی میں یہ پوُچھنا ’’بائبل کس نے لکھی ہے‘‘ ایک اہم سوال بن جاتا ہے، اور حق بنتا ہے کہ اِس کی سنجیدہ تفتیش کی جاےاور سنجیدہ جواب دیا جاے۔ بائبل انسانیت کے لیے خُدا کا ایک خط ہے جو ۶۶ کتُب پر مشتمل ہے اور جسے ۴۰ مصنفوں نے لکھا ہے جنہیں یہ روحانی الہام حاصل ہُوا۔ یہ مُصنفین زندگی کے ہر طبقہ سے آئے تھے (جیسے کہ بادشاہوں سے لے کر ماہی گیروں تک) اور یہ ۱۵۰۰ سے زیادہ برسوں کے عرصہ پر محیط ہے۔ بظاہر اِس میں درج دعوے ڈرامائی (یا کچھ کے لیے غیر حقیقی ) ہو سکتے ہیں ، لیکن بائبل کے حوالوں کو بغور دیانتداری سے پڑھنے کے بعد آپ پر اِنکی سچائی ظاہر ہو سکتی ہے۔

  اس سوال کا جواب یقیناً بائبل کے مسودات کی بیرونی اور اندرونی شہادتوں اور دعٰووں کی روشنی میں جانچنے سے بھی دیا جا سکتا ہے۔ دوُسرا تیمتھیُس۳ :۱۶ بیان کرتا ہے ’’ ہر ایک صحِیفہ جو خُدا کے اِلہام سے ہے…‘‘ دوسرا پطرس ۱ : ۲۰ ـ ۲۱، میں پطرس پڑھنے والوں کو یاد دِلاتا ہے ’’ اور پہلے یہ جان لو کہ کتابِ مقدّس کی کسی نُبُوّت کی بات کی تاوِیل کسی کے ذاتی اِختیار پر موقُوف نہیں… کیونکہ نُبُوّت کی کوئی بات آدمی کی خواہِش سے نہیں ہُوئی بلکہ آدمی رُوحُ القدُس کی تحریک کے سبب سے خُدا کی طرف سے بولتے تھے۔ ‘‘۔بائبل خود ہمیں بتاتی ہے کہ وہ خُدا ہی ہے جو اِس کتاب کا مصنف ہے۔ خُدا بائبل میں اپنے ہاتھ کے کام کو ہمارے لیے محض دعٰوں کی حد تک نہیں چھوڑتا بلکہ قائل کر دینے والی شہادتیں بھی پیش کرتا ہے۔ بائبل کا اپنا مرُتب کردہ نمونہ ہی اَز خود ایک معجزہ ہے۔ ۱۵۰۰ برسوں میں دوُر دراز کے الگ الگ مصنفوں کے ہاتھوں سے لکھی گئی، اِس کے باوجوُد بائبل میں موجوُد ہر کتاب اپنے پیغام میں ایک تسلسل برقرار رکھتی ہے۔ یہ ۶۶ کتابیں تاریخ، نبوّت، شاعری، اور روحانی تعلیم کے بارے میں بتاتی ہیں ۔ اِن کی پیچیدگی، لکھنے کے الگ الگ انداز اور طویل دورانیہ کے باوجوُد بائبل کی یہ کتابیں اپنے مضموُن، حقائق اور حوالوں میں یکسانیت ظاہر کرتی ہیں.

  کوئی انسان کتابوں کے اِس پیچیدہ مجموُعہ کو ۱۵۰۰ سال کے طویل عرصہ میں کبھی تیار نہیں کر سکتا تھا ۔ بائبل کے مسودے (یاد رہے سال ۱۶۵۵تک چھپائی  کے لئے کوئی پریس نہیں تھے) موسموں کی شدت، سختیوں اور وقتوں کی طوالت کے باوجوُد اب تک قائم ہیں۔ مثال کے طور پر بحر ِ مردار میں پاے جانے والے طوُماروں میں پُرانے عہد نامہ کی کتابیں شامل ہیں، سواے آستر کی کتا ب کے ، اور جو مسیح کے دور سے پہلے کی بتائی جاتی ہیں۔ جوُلیس سیِزر کی  جنگوں پر غور کریں۔ اِن واقعات کی تاریخ میں ۱۰۰۰ سال کے عرصہ میں صر ف دس جلدیں لکھی گئیں۔ اِس کے برعکس مسیح کے بعد ۲۴ سالوں کے عرصہ میں ۲۴۰۰۰ سے زیادہ نئے عہد نامہ کے مسودے تحریر کیے گئے۔ پیشن گوئیوں کے پوُرا ہونے کے ذریعہ سے بائبل مصنفین کی روُحانیت کے تقاضےکو پوُرا اور ثابت بھی کرتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر اب تک بائبل کی ۶۶۸ پیشن گوئیاں پوُری ہوُئی ہیں اور آج تک ایک بھی غلط ثابت نہیں ہوئی ۔ بائبل کی پیشن گوئیوں کو دیانتدری سے پڑھا جاے تو آپکو بائبل کی روحانیت میں مسُتند کتاب طور پر لکھے جانے کا پتہ چلتا ہے۔ اِس سے بڑھ کر بائبل میں موجود واقعات کی  آثارِ قدیمہ کے ماہرین تصَدیق کرتے ہیں۔ شہادتوں کی تعداد اور اِس کی تصنیف کے مقُدس ہونے میں کوئی اور پاک کتاب بائبل کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتی۔ بائبل کس نے لکھی ــ ابدی اہمیت کا ایک سوال ہے۔ یقیناًً ایسا سوال ہے جو ہر کسی کو پوُچھنا چاہیے۔ اگر یہ حقیقت میں زندہ خُدا کا کلام ہے ، تو پھر اور کوئی کتاب ہماری زندگی پر اِس سے زیادہ روشنی نہیں ڈال سکتی، نہ ہی ہمیں مسُتقبل کے لیے اُمید بخش سکتی ہے اور نہ ہی کوئی کتاب خُدا کے ساتھ تعلق قائم رکھنے کے لیے اِس طرح کی حقیقی راہ دیکھا سکتی ہے۔ کشادہ دلی اور دیانتداری سے بائبل کی کھوج کریں اور خود دیکھیں کہ کائنات کا خالق آپ سے کیا کہنا چاہتا ہے!

 بائبل کی تاریخ : ، یہ تاریخ کے غیرمعموُلی اندراج سے شروُع ہوتی ہے! یہ کوئی ایک کتاب نہیں ہے جیسا میں ہمیشہ سوچتا رہا تھا ــ یہ تحریروں کا قدیم مجموُعہ۱۵۰۰ قبل از مسیح میں لکھی گئیں، اور نئے عہد نامہ میں ۲۷ کتُب ہیں جو تقریباً ۴۰ سے ۹۰ بعد از مسیح کے دور میں لکھی گئیں۔ ہے ،  تاریخ یہودیوں کی مقد س کتاب سے شروُع ہوتی ہے۔ یہوُدیوں کے تاریخی انِدراج صدیوں پر محیط عرصہ میں چمڑے کے طوُماروں اور پتھر کی لوحوں پر تحریر کیے جاتے تھے، اور مُصنِفوں میں بادشاہ، چرواہے، انبیا اور دوُسرے رہنُما ہوتے تھے۔ پہلی ۵ کتابیں شریعت کہلاتی ہیں جن کی تحریر و تدوین ۱۴۰۰ قبل از مسیح میں بنیادی طور پر موُسیٰ نے کی تھی۔ اِس کے بعد کئی اور الہامی مسودات یہودی لوگوں نے اگلے ۱۰۰۰ برسوں میں لکھے اور یکجا کیے۔ تقریباً ۴۵۰ قبل مسیح میں شریعت اور یہوُدی مسودات کو ربیّوں کی کونسل (یہوُدی اُستادوں) نے ترتیب دیا ، جنہوں نے بعد میں اِس مکمل مجموعہ کو الہامی اور خُدا (الوہیم) کے مقدس اختیار کے طور پر تسلیم کیا۔ اِسی دوران کسی وقت عبرانی بائبل کو بشمول شریعت (توریت) کے ، عنوانوں کے لحاظ سے ترتیب دیا گیا، انبیا کو ( نبِیم ) اور تحریروں کو (کِتوُبیم) کہا گیا۔ عبرانی الفاظ کے پہلے حروُف ’ٹی‘، ’ این‘ اور’ کے‘ عبرانی بائبل کے نام کو شکل دیتے ہیں ــ)

 ابتدائی دور کے ۲۵۰ قبل مسیح میں اِس کا ترجمہ یونانی زبان میں ، اسکندریہ میں، مصر کے یہوُدی عالموں سے کرایا گیا۔ یہ ترجمہ ہفتادی ترجمہ کے نام سےجانا گیا اور اِس کے معنی ہیں ۷۰، اور اُس روایت کا حوالہ دیتا ہے کہ ۷۰ (یا شاید ۷۲ ) لوگوں نے ملکر اِس کا ترجمہ کیا ہے۔ : تاریخ (پیدائش ــ آستر)، شاعری (ایوب ــ غزلالغزلات)، اور انبیا کے صحیفے (یسعیاہ ــ ملاکی و دیگر )۔ )

  اگرچہ یہودی مسودوں کی ہاتھ سے لکھ کر نقل کی گئی تھی تو بھی وہ انتہائی درُست نقل تھے۔ یہودیوں کے پاس فقیہوں کا  غیرمعمولی نظام ہے، جنہوں نے حرف ، الفاظ اور عبارتیں گنتی کرنے کا ایک پیچیدہ اور رسموں پر مبنی طریقہ تیار کیا تاکہ اِس مقدس کتاب کی درستگی قائم رہ سکے۔ کیونکہ نقل کرتے ہوُے ایک چھوٹی سی غلطی بھی پوُرے طوُمار کو فوری تباہ کرنے کا موجب بن سکتی ہے۔ در اصل یہوُدی فقیہوں کی یہ روایت ۱۴۰۰ سال بعد از مسیح کے درمیانی عرصہ میں چھاپہ خانوں کی ایجاد تک قائم رہی۔ جہاں تک مسودوں کی درستگی کا سوال ہے ، بحر مر دار کی حالیہ دریافت نے ہزاروں برسوں پر محیط فقیہوں کے نظام کی نمایاں تصدیق کی ہے ۔

 ۴۰۰ برسوں پر مبنی الہامی عبارتوں کی خاموشی کے بعد ، ۴ قبل مسیح میں یسوُع منظر عام پر آگیا ۔ اپنی پوُری تعلیم میں یسوُع نے پُرانے عہد نامہ کا بارہا حوالہ دیا ہے، یہ اعلان کرتے ہوُے کہ وہ یہودی بائبل کو منسوخ کرنے نہیں آیا، بلکہ اُنہیں پوُرا کرنے آیا ہے۔ لوُقا کی کتاب میں یسوع اپنے شاگردوں کے آگے بیان کرتا ہے ’’اُن تمام باتوں کا پوُرا ہونا ضروُری ہے جو میرے بارے میں موُسیٰ کی شریعت ، زبوُر اور نبیوں کی معرفت کہی گئی ہیں ‘‘۔

: مسیح سے شروع ہو کر ۹۰ بعد از مسیح تک ، یسوُع مسیح کی زندگی کے عینی گواہان

یوحنا، متی ،لوقا ، مرقس اورپولُس، یعقوب، پطرس اور یہوداہ نے اِنجیلیں، خطوُط اور کتابیں لکھیں جو بائبل کا نیا عہد نامہ بنیں۔ یہ مُصنفین اپنی  کتابوں میں ۳۱ دفعہ  پُرانے عہد نامہ کا حوالہ دیتے ہیں، اور انہوں نے اپنے اِس مواد کو اِس قدر وسیع پیمانے پر پھیلایا کہ ۱۵۰ بعد از مسیح میں ابتدائی مسیحی اِس تحریر کے مکمل مجموُعہ کو ’’نیا عہد‘‘ کہ کر پکارتے تھے۔ ۲۰۰ بعد از مسیح کے دوران اصل تحریروں کا ترجمہ یونانی سے لاطینی، (مصر کی)قبطی زبان، (شام کی)  سریانی زبان میں ہوُا، جو وسیع پیمانے پر رومی سلطنت اور اُس سے آگے بھی ’’الہامی کتاب‘‘ کے طور پر پہچانا گیا ۔آج پوری دنیا کی مختلف زبانوں میں  مکمل بائبل یا اسکے مختلف حصوں کے تراجم ماجود ہیں اور دستیاب ہے ۔

کیا یہ جواب آپ کے لیے مددگار ثابت ہوُا؟ ہاں / نہیں

روح القدس کون ہے

روح القدس کی پہچان کو لے کر کئی طرح کے غلط تصورات پائےجاتےہیں۔ کچھ لوگ روح القدس کو ایک چھپی ہوئی یعنی مخفی قوت  کےطور تصور کرتے ہیں۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ روح القدس ایک غیر شخصی قوت ہےجس کو خدا مسیح کے پیروکارون کو دیتا ہے۔ سو ہم دیکھیں گے روح القدس کی پہچان کی بابت پاک کلام کیا کہتاہے؟ سیدھے سادھے طور سےدیکھیں گے کہ پاک کلام اعلان کرتاہے کہ روح القدس خدا ہے۔ پاک کلام ہم سے یہ بھی کہتاہے کہ روح القدس ایک الہی شخص ہے جس میں عقل ہے، احساس اور مرضی بھی ہے۔

  حقیقت تو یہ ہے کہ روح القدس کو  بطور خدا پاک کلام کی مختلف آیات میں صاف طور سے دیکھا جاسکتا ہے جن میں اعمال کی کتاب 5 :3- 4 بھی شامل ہے۔ ان آیتوں میں پطرس حننیاہ کا سامناکرکے کہتاہے کہ اس نے روح القدس سے کیوں جھوٹ بولا اور یہ کہ اس نے انسان سے نہیں بلکہ خدا سے جھوٹ بولا تھا۔ تو پھر یہ صاف اعلان ہے کہ روح القدس سے جھوٹ بولنا مان لو خدا سے جھوٹ بولنا ہوا۔ آیات کی روشنی میں ہم یہ بھی معلوم کر سکتے ہیں کہ روح القدس اس لئے خدا ہے کیونکہ اس میں خدا کی صفات و اوصاف پائےجاتے ہیں۔ مثال کے طور پراس کی ہمہ جا ہونا یعنی کہ ہر جگہ حاضر رہنا یا موجود رہنا (زبور شریف 139: 7 -8 )میں پایا جاتا ہے۔ زبور نویس داؤد کہتا ہے کہ "میں تیری روح سے بچ کر کہاں جاؤں یا تیری حضوری سے کدھر بھاگوں؟ اگر آسمان پر چڑھ جاؤں تو تو وہاں ہے۔ اگر میں پاتال میں بستر بچھاؤں تو دیکھ تو وہا بھی ہے”۔ پھر (1 کرنتھیوں 2 :10 -11 )میں ہم روح القدس میں خدا کی "معرفت کُل” کے اوصاف کو دیکھتے ہیں۔ اس میں پولس رسول اس طرح کہتا ہے "لیکن ہم پر خدا نے ان کو روح کے وسیلہ سے ظاہر کیا کیونکہ روح سب باتیں بلکہ خداکی تہہ کی باتیں بھی دریافت کر لیتا ہے۔ کیونکہ انسانوں میں سے کون کسی انسان کی باتیں جانتاہے سو انسان کی اپنی روح کے جو اس میں ہے؟ اسی طرح خدا کے روح کے سوا کوئی خدا کی باتیں نہیں جانتا”۔

ہم جان سکتے ہیں کہ روح القدس حقیقت میں ایک الہی شخص ہے کیونکہ وہ عقل رکھتاہے، احساسات اور مرضئ رکھتا ہے۔ روح القدس جانتاہے اور سوچتاہے (1 کرنتھیوں 2:10)۔ روح القدس رنجیدہ ہو سکتا ہے (افسیوں 4:30)۔ روح القدس ہمارے لئے شفاعت کرتاہے (رومیوں 8 :26-27) ۔ روح القدس اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ لیتا ہے (1 کرنتھیوں12: 7- 12)۔ روح القدس خدا ہے، تثیلث کا تیسرا شخص۔ خدا ہونے کی حیثیت سے روح القدس سچ مچ مددگار اور صلاح کارطور اپنا کردار نبھا سکتا ہے۔ یسوع نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایسا کرے گا۔ (14: 16 ،15 :26)۔

خوف اور فکر کے لئےآیات

فلپیوں 6 :4 -7 

کِسی بات کی فِکر نہ کرو بلکہ ہر ایک بات میں تُمہاری دَرخواستیں دُعا اور مِنّت کے وسِیلہ سے شُکرگُذاری کے ساتھ خُدا کے سامنے پیش کی جائیں۔

تو خُدا کا اِطمینان جو سَمَجھ سے بِالکُل باہِر ہے تُمہارے دِلوں اور خیالوں کو مسِیح یِسُوع میں محفُوظ رکھّے گا.

متّی 6: 25 – 26

اِس لِئے مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ اپنی جان کی فِکر نہ کرنا کہ ہم کیا

کھائیں گے یا کیا پیئیں گے؟ اور نہ اپنے بَدَن کی کہ کیا پہنیں گے؟ کیاجان خوراک سے اور بَدَن پوشاک سے بڑھ کر نہِیں؟ ہوا کے پرِندوں کو دیکھو نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے۔ نہ کوٹھِیوں میں جمع کرتے ہیں تو بھی تُمہارا آسمانی باپ اُن کو کھِلاتا ہے۔ کیا تُم اُن سے زیادہ قدر نہِیں رکھتے؟

متّی34:6

پَس کل کے لِئے فِکر نہ کرو کِیُونکہ کل کا دِن اپنے لِئے آپ فِکر کرلے گا۔ آج

کے لِئے آج ہی کا دُکھ کافی ہے۔

یسعیاہ35:4 

ان کو کج دلے ہیں کہو ہمت باندھو مت ڈرو ۔ دیکھو تمہارا خدا سزا اور جزا کے لیے آتا ہے۔ ہاں خدا ہی آئیگا اورتم کو بچائیگا۔

1 پطرس7:5

اور اپنی ساری فِکر اُسی پر ڈال دو کِیُونکہ اُس کو تُمہارا خیال ہے۔

زبُور19:94

جب میرے دِل میں فِکروں کی کثرت ہوتی ہے تو تیری تسلی میری جان کو شاد کرتی ہے۔

متّی 10 :19-20

لیکِن جب وہ تُم کو پکڑوائیں تو فِکر نہ کرنا کہ ہم کِس طرح کہیں اور کیا کہیں کِیُونکہ جو کُچھ کہنا ہوگا اُسی گھڑی تُم کو بتایا جائے گا۔ کِیُونکہ بولنے والے تُم نہِیں بلکہ تُمہارے باپ کا رُوح ہے جو تُم میں بولتا ہے۔

اِمثال3 : 5- 6

سارے دِل سے خداوند پر توکل کراور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر ۔

اپنی سب راہوں میں اُسکو پہچان اور وہ تیری راہنمائی کریگا ۔

متّی 27:6

تُم میں اَیسا کون ہے جو فِکر کر کے اپنی عُمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے؟

رومیوں18:8

کِیُونکہ میری دانِست میں اِس زمانہ کے دُکھ درد اِس لائِق نہِیں کہ اُس جلال کے مُقابِل ہوسکیں جو ہم پر ظاہِر ہونے والا ہے۔

اِمثال 25:12

آدمی کا دل فکرمندی سے دب جٓاتا ہے لیکن اچھی بات سے خوش ہوتا ہے۔

زبُور 62:8

اَے لوگو! ہر وقت اُس پر توکُل کرو۔اپنے دِل کا حال اُسکے سامنے کھول دو۔ خُدا ہماری پناہ گاہ ہے۔

رومیوں 28:8

اور ہم کو معلُوم ہے کہ سب چِیزیں مِل کر خُدا سے محبّت رکھنے والوں کے لِئے بھلائی پَیدا کرتی ہیں یعنی اُن کے لِئے جو خُدا کے اِرادہ کے مُوافِق بُلائے گئے۔

یسعیاہ 10:41

تو مت ڈر کیونکہ میں تیرے ساتھ ہوں۔ ہراسان نہ ہو کیونکہ میں تیرا خدا ہوں میں تجھے زوربخشونگا۔ میں یقیناً تیری مدد کرونگا اور میں اپنی صداقت کے دہنے ہاتھسے تجھے سنبھالونگا۔

یرمیاہ 11:29

کیونکہ میں تمہارے حق میں اپنے خیالات کوجانتا ہوں خداوند فرماتا ہے یعنی سلامتی کے خیالات ۔بُرائی کے نہیں تاکہ میں تم کو نیک انجام کی اُمید بخشوں.

متّی 11: 28 -29

اَے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہُوئے لوگو سب میرے پاس آؤ۔ میں تُم کو آرام دُوں گا۔

میرا جُوا اپنے اُوپر اُٹھا لو اور مُجھ سے سِیکھو۔ کِیُونکہ مَیں حلِیم ہُوں اور دِل کا فروتن۔ تو تُمہاری جانیں آرام پائیں گی۔

اِمثال 25:31

عزت اور حرمت اُسکی پوشاک ہیں اور وہ آیندہ ایام پر ہنستی ہے۔

استثنا 6:31

تو مضبو ط ہو جا اور حوصلہ رکھ ۔ مت ڈر اور نہ اُن سے خوف کھاکیونکہ خداوند تیرا خدا خود ہی تیرے ساتھ جاتا ہے ۔ وہ تجھ سے دست بردار نہیں ہو گا اور نہ تجھ کو چھوڑے گا ۔

رومیوں 12:12

اُمِید میں خُوش۔ مصِیبت میں صابِر۔ دُعا کرنے میں مشغُول رہُو۔

خود کشی کیوں نہیں کرنی چاہئے

 

  ہم جب خود کشی کے مسئلے کے بارے میں سوچتے ہیں تو اس بات سے حیران ہوتےہیں کہ یہ مسئلہ تمام معاشروں اور خطوں کا یکساں مسئلہ ہے اس لئے اس کی طرف توجہ دینے اور اس کو سمجھنے کی ہم سب کو ضرورت ہے۔ جب ہم سنجیدگی اس پر غور کرتے ہیں تو ہمارے دل اُن لوگوں کی طرف جاتے ہیں جو خودکشی کے ذریعے اپنی زندگیوں کو ختم کرنے کے خیالات رکھتے ہیں۔ اگر یہ بات ہے تو اس وقت ان کے باطن میں پائے جانے والے کئی  احساسات کی بات کر سکتے ہیں جیسے نااُمیدی اور مایوسی کے احساسات۔ ایسی حالت میں آپ شاید محسوس کریں کہ آپ بہت گہرے گڑھے میں ہیں اور آپ کو گمان ہوتا ہے کہ اس میں سے نکلنا مُحال ہے، کوئی آپ کی پرواہ نہیں کرتا اور نہیں سمجھتا کہ آپ کس قسم کی کربناک حالت سے گزر رہے ہیں، زندگی آپ کے لئے دُوبھر نظر آتی ہے… کیا ایسا ہے؟اگر آپ کچھ لمحوں کے لئے سوچیں اور دھیان کریں اور اِسی وقت خدا کواپنےشخصی مددگار خدا کے طور پہچان لیں تو وہ ثابت کر دے گا کہ وہ کتنا بڑامددگار اورایک حقیقی شفیق پُرمحبت ہستی ہے، ’’کیونکہ خدا کے لئے کوئی بھی چیز ناممکن نہیں ہے۔

 (لوقا37:1)۔ شاید ماضی کے پرانے زخموں کے نشانات کے سبب سے آپ کا کربناک احساس یہ ہے کہ خدا نے آپکو چھوڑ دیا یا پھر آپ کو ترک کر دیا ہے۔ شاید یہ احساس آپ کو خود پر ترس کھانے، غصّہ کڑواہٹ، کینہ ور خیالات یا بے جا خوف و ہراس کی طرف لے جائے یا پھر آپ کے بہت ہی اہم اور قریبی رشتوں کے بیچ پریشانیاں اور دوریا کھڑی کر دے۔

آپ کو خودکشی کیوں نہیں کرنی چاہئے؟ پیارے دوست! چاہے کتنی بھی بری چیزیں آپ کی زندگی میں آجائیں اور آپکے حالات کتنے بھی بدتر کیوں نہ ہو جائیں، تو بھی اس بات کو یاد رکھیں کہ ایک محبت کرنے والا خدا آپ کا انتظار کر رہا ہے کہ آپ کو مایوسیوں اور صدموں کی سُرنگ میں آپ کی راہنمائی کرے اور اس سے باہر لاکر اپنی عجیب و غریب روشنی دکھائے۔ وہ آپ کی قابل بھروسہ اُمید ہے۔اور اس خُدا کا نام یسوع ہے۔

یہی یسوع جو بے گناہ خدا کا بیٹا ہے، نا قبولیت اور ذلت کے وقت آپ کی حالت کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا ہے کیونکہ وہ بھی ایسی حالت سے کزرا تھا۔ 

 یسعیاہ نبی اُس کے بارے میں یسعیاہ 53 :2-6 میں اس طرح بیان کرتا ہے کہ’’وہ آدمیوں میں حقیر و مردود، مرد غمناک اور رنج کا آشنا تھا۔ لوگ اُس سے گویا رُوپوش تھے۔ اس کی تحقیر کی گئی اور ہم نے اس کی کچھ قدر نہ جانی تو بھی اس نے ہماری مشقتّیں اُٹھالیں اور ہمارے غموں کو برداشت کیا۔ پر ہم نے اُسے خدا کا مارا کوٹا اور ستایا ہوا سمجھا، حالانکہ وہ ہماری خطاوں  کے سبب سے گھایل کیا گیا اور ہماری بدکرداری کے باعث کچلا گیا   

یہ سب کچھ ہمارے گناہوں کے سبب سے تھا اسکے دکھ اُٹھانے اور اس کی موت کے سبب سے ہم کو گناھوں سے چھٹکارا ملا اور ہم بچائے گئے۔

دوستوں! یسوع مسیح نے یہ سب اس لئے سہا تاکہ آپ کے گناہ بخشے جائیں معاف کئے جائیں، جتنا بھی گناہوں کا بوجھ آپ اُٹھائے ہوئے ہیں آپ جانتے ہیں

کہ اُن سب کو وہ معاف کر دے گا بشرطیکہ آپ حلیمی سے اس کو اپنا نجات دہندہ قبول کریں… زبور نویس کہتا ہے کہ ’’مُصیبت کے دن مجھ سے فریاد کر، میں تجھے چھڑوائوں گا۔‘‘ (زبور شریف 15:50)۔ چاہے آپ نے کتنا بھی بُرے سے بُرا جرم کیا ہو یسوع مسیح اسے معاف کردیتا ہے۔ اس کے کچھ بڑے بڑے خادموں نے ناشائستہ گناہ کئے ہیں جیسے موسیٰ نے قتل کا گناہ کیا، جیسے دائود بادشاہ نے قتل اور زنا کاری کا گناہ کیا۔ جیسے پولس رسول نے مسیح کے ایمانداروں کو جسمانی طور سے ایذائیں پہنچائیں۔ اس کے باوجود بھی انہوں نے خدا کی طرف سے معافی حاصل کی اور خداوند میں ہمیشہ کی زندگی کے حقدار ہوئے۔ اس لئے پولس کہتا ہے کہ اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے۔ پرانی چیزیں جاتی رہیں دیکھو وہ نئی ہوگئیں (2 کرنتھیوں17:5)۔

دوست، اس لئے کہ جو کچھ آپ کا بگڑ گیا ہے یا ٹوٹا ہوا ہے اُسے جوڑنے کے لئے خدا آپ کے سامنے مددگارکے طور سے کھڑا ہے۔ یہ زندگی جو ابھی آپ

کے پاس ہے۔ یا وہ زندگی جسے آپ خودکُشی کے ذریعہ ختم کرنا چاہتے ہیں

  یہ خدا کی نعمت ہے۔ یہ خدا کی امانت ہے، جوبکھر کیا ہے خُدا اِسے جوڑنا چاہتا ہے۔ کیونکہ  اُس نے اپنے کلام کے ذریعے یہ بتتا ہم تک پہنچائی ہے

یسعیاہ 2:61-3 میں نبی نے لکھا ’’خداوند خدا کا روح مجھ پر ہے کیونکہ اس نے مجھے مسح کیا تاکہ حلیموں کو خوشخبری سُنائوں۔ اس نے بھیجا ہے کہ شکستہ دلوں کو تسلی دُوں، قیدیوں کے لئے رہائی اور اسیروں کے لئے آزادی کا اعلان کروں تاکہ خداوند کے سالِ مقبول کی منادی کروں اور اپنے خدا کے انتقام کے روز کا اشتہار دوں اور سب غمگینوں کو دلاسا دوں۔”

مدد کے لئے آپ مسیح یسوع کے پاس آئیں۔ جب آپ اس پر بھروسہ کریں گے کہ وہ آپ کی زندگی میں ایک نیا کام شروع کرے تو پھرآپ کو موقع دیں کے وہ آپکی خوشی اور زندگی کو بحال کرے ۔ جس خوشی کو آپ نے کھویا ہے اُسے وہ بحال کرنے کا وعدہ کرتا ہے اور آپ کو ایک نئی روح عطا کرکے آپ

کو سہارا دیتا ہے۔ یاد رکھیں کہ آپ کا ٹوٹا ہوا دل اس کے لئے بہت قیمتی ہے۔

داود کہتا ہے کہ شکستہ روح خدا کی قربانی ہے۔ اس لئے خدا تُو شکستہ اور  خستہ دل کو حقیر نہ جانے گا (زبور شریف 51:12, 15-17)۔

کیا آپ نے خداوند یسوع کو اپنا شخصی نجات دہندہ اور خداوند قبول کیا ہے؟ جس دن آپ اس کو قبول کرتے ہیں اُسی لمحے سے وہ اپنے کلام کے وسیلے سے آپ کے خیالات اور آپ کے قدموں کی رہبری کرے گا۔ اس کا وعدہ ہے

کہ ’’میں تجھے تعلیم دوں گا اور جس راہ پر تجھے چلنا ہونا ہوگا تجھے بتائوں گا میں تجھے صلاح دوں گا۔ میری نظر تجھ پر ہوگی‘‘ (زبور شریف8:32)۔ ’’اور تیرے زمانہ میں امن ہوگا، نجات و حکمت اور دانش کی فراوانی ہوگی۔ خدا وند کا خوف اس کا خزانہ ہے‘‘ (یسعیاہ6:33)۔

گو ابھی آپ کشمکش اور کربناک حالت میں ہوں گے۔ یسوع مسیح میں آجانےسے آپ کو زندگی سے محبت اور ایک نئی اُمید  نظر آئے گی۔

سلیمان کہتا ہے: ’’جو بہتوں سے دوستی کرتا ہے وہ اپنی بربادی کے لئے کرتا ہے پر ایک دوست بھی ہے جو بھائی سے زیادہ محبت رکھتا ہے۔‘‘ (مثال24:18)۔ خداوند یسوع مسیح کا فضل آپ کے فیصلے کی گھڑی میں آپ کے ساتھ ہوگا۔

اگر آپ مسیح یسوع کو اپنا شخصی نجات دہندہ قبول کرنے اور اُس پر بھروسہ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو خدا سے اس طرح دعا کریں ’’اے خدا مجھے اپنی زندگی میں تیری ضرورت ہے جو کچھ میں نے کیا ہے اگر وہ تیری نظر میں گناہ ہے تو تُو اسے معاف فرما، میں یسوع مسیح پر ایمان لاتا اور یہ اعتقاد کرتا ہوں کہ وہ میرا نجات دہندہ ہے۔ برائے مہربانی تو مجھے پاک کر، تو مجھے شفا عنایت کر اور میری زندگی میں میری خوشی کو بحال کر۔ میرے لئے جو تیری محبت ہے اس کا شکریہ اور یسوع کی اس موت کے لئے جو میرے بدلے میں اس نے سہی اس کے لئے بھی تیرا شکریہ۔‘‘ آمین

اب خداوند یسوع مسیح اپنی روح کے وسیلے سے آپکی زندگی کےتمام   معاملات میں مدد  کرتا اور سیکھاتا رھے گا۔ (یوحنا چودہ باب چھبیس، ستائیس ، رومیوں آٹھ باب  چھبیس آیت )