خوف کے بارے میں بائبلی تعلیم

     تمام انسانوں کو اپنی زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر خوف کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے۔ ماہر نفسیات خوف کی کئی اقسام کا ذکر کرتے ہیں لیکن بائبلی تعلیم میں بائبل خوف کی دو اقسام کے متعلق بیان کرتی ہے۔ایک قسم جوفائدہ مند ہے اور اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔دوسری قسم نقصان دہ ہے اور اس کو قابو میں کرنا چاہیے۔ پہلی قسم کا خوف خدا کا خوف ہے۔ اس کا ہرگزمطلب کسی چیز سے ڈرنا نہیں ہے۔اس کے برعکس اس سے مراد خدا کا مودبانہ خوف؛اس کی قدرت اور جلال کی عزت وتکریم کرنا ہے۔دوسرے الفاظ میں خداوند کے خوف سےمراد خد اکے وجود کو تسلیم کرناہے جو خُدا کی ذات کو اور اس کی خوبیوں کو جاننے سے پیدا ہوتا ہے۔

     خداوند کے خوف سے بہت سی برکات اورفائدے حاصل ہوتے ہیں۔اس کا انجام حکمت اور فہم کا حصول ہے (زبور 111: 10)۔ احمق حکمت اور تربیت کی حقارت کرتے ہیں(امثال 1 : 7)۔اس کے علاوہ خداوند کا خوف زندگی،آرام،اطمینان اور تسلی بخشتا ہے (امثال 19: 23) اورہماری محفاظت  اور پناہ گاہ ہے(امثال 14: 26)۔

  پس ہم دیکھ سکتے ہیں کہ خدا کے خوف کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔بہرحال دوسرے قسم کا خوف جس کا بائبل ذکر کرتی ہے کسی صورت بھی فائدہ مند نہیں ہے۔یہ 2 تمیتھیس 1 : 7 کے مطابق ’’دہشت کی روح‘‘ ہے:’’کیونکہ خدا نے ہمیں دہشت کی روح نہیں بلکہ قدرت اور محبت اور تربیت کی روح دی ہے۔‘‘(این۔کے۔جے۔وی ترجمہ)۔خوف اور شرمندگی کی روح خدا کی طرف سے نہیں ہے۔

    تو بھی بعض اوقات ہم خوف زدہ ہو جاتے ہیں،بہت دفعہ یہ ’’خوف کی روح‘‘ ہم پر حاوی ہو جاتی ہے،اور اس پر غالب آنے کے لئے ہمیں خدا پر مکمل بھروسے اور اس سے پورے طور پر محبت کرنے کی ضرورت ہے۔’’محبت میں خوف نہیں ہوتا بلکہ کامل محبت خوف کو دور کر دیتی ہے کیونکہ خوف سے عذاب ہوتا ہے اور کوئی خوف کرنے والا محبت میں کامل نہیں ہوا۔‘‘

(1 یوحنا 4 : 18)۔خدا جانتا ہے کہ کوئی بھی کامل نہیں ہے۔اسی لئے اس نے بائبل کے ہر حصہ میں خوف کی حوصلہ شکنی کی ہے۔پیدایش کی کتاب سے مکاشفہ کی کتاب تک خدا ہمیں یاد دلا تا ہے کہ ’’خوف نہ کر‘‘۔

     مثال کے طور پریسعیاہ 41 : 10 میں ہماری حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ ’’تومت ڈرکیونکہ میں تیرے ساتھ ہوں۔ہراساں نہ ہو کیونکہ میں تیرا خدا ہوں،میں تجھے زور بخشوں گا۔ میں یقیناً تیری مدد کروں گا۔ اور اپنی صداقت کے دہنے ہاتھ سے تجھے سنبھالوں گا۔‘‘ ہم اکثر اپنے مستقبل کے بارے میں خوف زدہ رہتے ہیں کہ ہمارا کیا بنے گا۔ لیکن یسوع نے ہمیں جتا دیا ہے کہ وہ خدا جو ہوا کے پرندوں کی فکر کرتا ہے  اپنے فرزندوں کو کیوں نہ کھلائے گا؟’’پس فکر نہ کرو؛تمہاری قدر تو بہت سی چڑیوں سے زیادہ ہے‘‘(متی 10: 31)۔ان چند آیات میں بہت سی اقسام کے خوف کے بارے میں کلام کیا گیاہے۔خدا نے ہمیں کہہ دیا ہے ہم تنہائی،کمزوری،رد کئے جانے،ضروریاتِ زندگی کے بارے میں خوف زدہ نہ ہوں۔ بائبل کے تمام حصوں میں ہمیں یہ نصیحتیں ملتی ہیں جن میں ’’خوف کی روح ‘‘ کے بہت سے پہلوں کے خلاف کلام کیا گیا ہے۔

      زبور 56: 11 میں زبور نویس بیان کرتا ہے کہ ’’میرا توکل خدا پر ہے۔ میں ڈرنے کا نہیں۔انسان میرا کیا کر سکتا ہے؟‘‘یہ خدا پر بھروسہ کرنے کی عظیم گواہی کی قدرت ہے۔ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں زبور نویس خد ا ہی پر  بھروسہ کرے گا کیونکہ وہ خدا کی قدرت سے واقف ہے۔ پس خوف پر غالب آنے کی کنجی خدا پر مکمل  او پورا بھروسہ کرنا ہے۔ خدا پر بھروسہ کرنے کا مطلب خوف کے سامنے سر جھکانےسے انکار ہے۔اس کا مطلب زندگی کے تاریک ترین وقت میں بھی خد اکی طرف رجوع کرنا اور حالات کے درست ہونے کے لئے اس پر بھروسہ کرنا ہے۔ یہ ایمان خدا او راس کی بھلائی کو جاننے سے پیدا ہوتا ہے۔ جیسا کہ ایوب کہتا ہے جو بائبل میں بیان کردہ سخت آزمائش کے بہت سےادوارمیں سےایک دورمیں سےگزر رہا تھا کہ ’’دیکھو وہ مجھے قتل کرے گا…تو بھی میں اس پر بھروسہ کروں گا‘‘ (ایوب 13 : 15) (این.کے .جے. وی. ترجمہ)۔

    جب ہم خدا پر بھروسہ کرنا سیکھ جائیں گے،تو ہم اپنے راستہ میں آنے والی کسی چیزسے نہیں ڈریں گے۔ہم زبور نویس کی مانند ہوں گے جس نے کہا کہ ’’لیکن وہ سب جو تجھ پر بھروسا رکھتے ہیں شادمان ہوں۔وہ سدا خوشی سے للکاریں کیونکہ تو ان کی حمایت کرتا ہے۔اور جو تیرے نام سے محبت رکھتے ہیں تجھ میں شاد رہیں۔‘‘ (زبور 5 : 11)۔