ذہنی سکون و آرام (روح کا آرام)کے بارے میں بائبلی تعلیم

اس دنیا میں زیادہ تر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ذہنی سکون ،پریشانی اور ذہنی دباوٗ کی عدم موجودگی کا نام ہے۔جب ہم لفظ ’’ ذہنی سکون ‘‘ استعمال کرتے ہیں تو ا س سے ہمارےذہنوں میں گوتم بدھ کی تصویرآجاتی ہے، جہاں اُسے آنکھیں بند کئے ہوئے پرسکون اور خاموش دکھایا گیا ہے جسے دیکھ کر لگتا ہے کہ اس اطمینان  میں کوئی خلل پیدا نہیں ہو سکتا۔ عموماً یہی خیال کیا جاتا ہے کہ خاموش طبیعت اورٹھنڈے مزاج کا حامل شخص ہی پر سکون ہو سکتا ہے۔بائبل مقدس کے این . آئی .وی ترجمہ میں ذہنی آرام کا ذکر ایک ہی بار 2 کرنتھیوں 2 : 13 میں ہوا ہے جہاں پولس رسول بیان کرتا ہے کہ چونکہ اس نے ططس کو تروآس میں نہیں پایا اس لئے  وہ ذہنی طور پر پرُسکون نہیں ہے۔اس کے لفظی معنیٰ ’’روح کا آرام ‘‘ ہے۔

بائبل مقدس سکون کو مختلف صورتوں میں پیش کرتی ہے۔ بعض اوقات خدا اور انسان کے بیچ صلح کوظاہر کرنے کے لئے آرام کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔گنہگار انسان اور پاک خدا کے بیچ یہ صلح(آرام) مسیح کی قربانی کے باعث ممکن ہوئی،’’اور اس کے خون کے سبب سے جو صلیب پربہا صلح کر کے …‘‘( کلسیوں 1 : 20)۔ اس کے علاوہ خداوند یسوع مسیح سردار کاہن کی حیثیت سے اس صلح کو قائم رکھے ہوئے ہے ،’’…جو خدا کے پاس آتے ہیں …وہ ان کی شفاعت کے لئے ہمیشہ زندہ ہے۔‘‘(عبرانیوں 7 : 25 )۔خدا کے ساتھ  میل ملاپ کرنے کے لئے صلح ہونا بہت ضروری جس سے مراد پرسکون ذہن ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے ہماری خدا کے ساتھ صلح ہوگی۔‘‘ (رومیوں 5 : 1 )اور پھر ہم روح القدس کے پھل اطمینان کاتجربہ کر سکیں گے، دوسرے الفاظ میں اس کے پھل ہم میں ظاہرہوں گے(گلتیوں 5 : 22)

یسعیاہ 26 : 3 میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ خدا ہمیں ’’کامل سلامتی‘‘ میں رکھے گا اگر ہم خدا کو اپنے دل میں رکھیں گے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری سوچیں، ہمارا محوراور ایمان اس پر ٹکا ہونا چاہیے۔ ہمارے ذہنی سکون یا بے سکونی کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم کس حد تک خد اکو اپنے دل میں جگہ دیتے ہیں، ہمارے دل میں خودی یا مسائل کو جگہ نہیں ملنی چاہیے۔ہم اطمینان کا تجربہ اس وقت کرتے ہیں جب ہم زبور(زبور 139 : 1۔ 12) نویس کے مطابق اس کی قربت اوراس کی بھلائی، قدرت، رحم ،محبت اور اس بات پر پورابھروسہ کرتے ہیں کہ وہ سارے حالات پر مکمل اختیار رکھتا ہے۔ہم جسے جانتے نہیں اس پر بھروسہ بھی نہیں رکھ سکتے، اس لئے صلح کے شہزادہ یسوع مسیح کو گہرے طور پر جاننا بہت ضروری ہے۔

دعا کرنے سے بھی ہمیں اطمینان ملتا ہے۔’’کسی بات کی فکر نہ کرو بلکہ ہر بات میں تمہاری درخواستیں دعا اور منت کے وسیلہ سے شکر گزاری کے ساتھ  خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔ تو خدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے تمہارے دلوں اور خیالو ں کو مسیح یسوع میں محفوظ رکھے گا۔‘‘ .

(فلپیوں 4 : 6۔ 7)

ذہن اور دل کا سکون و آرام اس وقت بھی ملتا ہے جب ہم یاد رکھتے ہیں کہ ہمارا باپ جو حکمت اور محبت سے پُر ہے ہماری زندگیوں کے لئے ایک منصوبہ رکھتا ہے۔’’اور ہم کو معلوم ہے کہ سب چیزیں مل کر خدا سےمحبت رکھنے والوں کے لئے بھلائی پیدا کرتی ہیں یعنی ان کے لئے جو خدا کے ارادہ کے موافق بلائے گئے۔‘‘ (رومیوں 8 : 28 )

خدا ہمارے مصائب میں سے بہت سی برکات جس میں اطمینان بھی شامل ہے ہمارےلئے پیداکر سکتاہے ۔یہاں تک کہ خداوند کی تنبیہ اور ملامت بھی ہماری زندگیوں میں ’’چین کے ساتھ راستبازی کا پھل بخشتی ہے‘‘(عبرانیوں 12 : 11)۔ ان کے باعث ہم ’’خدا سے اُمید‘‘ حاصل کرتے اورآخر کار ’’اس کی ستائش ‘‘ کرتے ہیں (زبور 43 : 5 )۔اور جب دوسرے بھی ان ہی آزمائشوں میں سے گزرتے ہیں تو ہم ان کو بھی ’’تسلی‘‘ دے سکتے ہیں

( 2 کرنتھیوں 1 : 4 )،اوریہ’’ہمارے لئے ازحد بھاری اور ابدی جلال پیدا کرتی جاتی ہے‘‘ (2 کرنتھیوں 4 : 17)

ذہنی سکون و آرام اور روح کا اطمینان جو ہمیں دیا گیا ہے صرف اسی وقت میسر ہوتا ہے جب مسیح کی صلیبی موت کے وسیلہ سے جو اس نے ہمارے گناہوں کے لئے برداشت کی ہماری خدا کے ساتھ مکمل صلح ہوتی ہے۔ وہ لوگ جو دنیا میں کہیں اور سکون و آرام ڈھونڈتے ہیں دھوکہ کھائیں گے ۔مسیحیوں کو یہ ذہنی سکون و آرام خد اکی گہری معرفت اور اس پر پورا بھروسہ کرنےسے ملتا ہے جو’’اپنی دولت کے موافق جلال سے مسیح یسوع میں تمہاری ہر ایک احتیاج رفع کرے گا۔‘‘ (فلپیوں 4 : 19 )

كيا مسيحي اور مسلمان ايک ہي خدا كي عبادت كرتے هيں؟

    اس سوال کا جواب اس بات پر منحصر هے که "ایک جیسے "خدا سے کیا مراد هے۔ اس سے انکار نهیں که مسلمانوں کے خیال میں خدا اور مسیحیوں کے خیال میں خدا میں بہت سی قدریں مشترک هیں۔ دونوں کے خیال میں خدا حکمرانِ اعلیٰ هے ، قادرِ مطلق هے، سب کچھ جاننے والا، هر جگه موجود، پاک اور راست هے۔ دونوں اسلام اور مسحیت ایک خدا پر یقین رکھتے هیں جس نے کائنات کی هر چیز کو پیدا کیا۔ پس ، هاں ، اس رو سے، مسیحی اور مسلمان ایک جیسے خدا کی عبادت کرتے هیں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاھئے کہ جہاں کچھ چیزیں مشترک ہیں وھاں ایک هی وقت میں مسیحیوں اور مسلمانوں کے درمیان خدا کے تصور کے بارے میں اهم فرق بھی هے۔ جبکه مسلمانوں کے خیال میں الله میں یه صفات هیں، مہربانی، رحم اور فضل؛ مگر الله ایسی خوبیوں کو ظاهر نهیں کرتا جیسے که مسیحی خدا کرتا هے۔ اگرچه سب سے زیاده بڑا فرق، مسلمانوں اور مسیحیوں کے خد کے تصور کے درمیان جو خدا کے مجسم هونے کا تصور هے ۔ یوحنا پہلا باب، آیات 1 اور 14۔

      مسیحی یقین رکھتے هیں که خدا یسوع مسیح کی صورت میں انسان بنا۔ مسلمان یقین رکھتے هیں که یه تصور انتهائی طور پر گستاخی هے۔ مسلمان کبھی بھی اس تصور کو قبول نهیں کرسکتے که الله ایک انسان بنا اور دنیا کے گناهوں کے لئے مُوا۔ خدا کے مجسم هونے پر یقین که وه شخصی طور پر یسوع مسیح هے مسیحیوں کے لئے خدا کے بارے میں اتفاقِ رائے کے لیے نہایت ضروری هے۔ خدا ایک انسان بنا پس وه همارے درد میں همارے ساتھ شریک هوسکتا هے اور سب سے ضروری بات کہ ، پس وه ہی نجات اور گناهوں کی معافی دے سکتا هے۔ اعمال کی کتاب چوتھا باب آٓیت 12.

    پس، کیا مسیحی اور مسلمان ایک ہی خدا کی عبادت کرتے هیں؟ جواب ہاں اور نہیں بھی ہے۔ شاید اچھا سوال یه هوگا ، "کیا مسیحی اور مسلمان دونوں درست سوچ رکھتے هیں که خدا کیاچاهتا هے؟اس کا جواب یقینی طور پر نهیں هے۔ یہاں پر مسیحیوں اور مسلمانوں کے خدا کے تصور کے درمیان کئی فیصله کن اختلافات هیں۔ دونوں کا تصور ایمان درست نهیں هو سکتے۔ هم یقین رکھتے هیں که مسیحی خدا کے بارے میں درست تصور رکھتے هیں کیونکه اس وقت تک نجات نہیں جب تک گناه کا کفار ه نه ادا کیا جائے۔ صرف خدا هی یه قیمت ادا کرسکتا هے ۔کیونکہ گناہوں کی قربانی کا تصور الہامی کتب میں ماجود ہےکہ لوگ جانوروں کو قربان کرکے گناہوں سے معافی پاتے تھے۔ صرف انسان بننے کے ذریعے ہی خدا هماری جگه مر سکتا هے اور همارے گناهوں کا کفارہ ادا کرتا هے۔ جیسا کے کلام میں لکھا ہے۔’’ لیکِن خُدا اپنی محبّت کی خُوبی ہم پر یُوں ظاہِر کرتا ہے کہ جب ہم گُنہگار ہی تھے تو مسِیح ہماری خاطِر مُئوا۔ “  (رومیوں 5 باب 8آیت) ’’ جو گُناہ سے واقِف نہ تھا اُسی کو اُس نے ہمارے واسطے گُناہ  ٹھہرایا تاکہ ہم اُس میں ہوکر خُدا کی راستبازی ہو جائیں۔ “ ؛2۔کرنتھیوں5باب21آیت ۔ 

خدا کا کلام تنہائی کے بارے میں کیا بتاتا ہے

اکیلے ہونا اور تنہا ہونا دو مختلف باتیں ہیں۔ کوئی شخص تنہا تو نہیں ہے پراکیلا ہوسکتا ہے،اور کوئی شخص بڑی بھیڑ میں تنہا ہو سکتا ہے۔اس لئے تنہائی ایک ایسی ذہنی کیفیت کا نام ہے جودوسرے انسانوں سے الگ(فرق،جدا)ہونے کا احساس ہے۔ جو لوگ تنہائی کا شکار ہوتے ہیں وہ اکیلے پن کو دوسروں سے بہت زیادہ گہرے طور پر محسوس کرتے ہیں۔پرانے عہد نامہ میں عبرانی زبان میں استعمال ہونے والے لفظ’’ویران‘‘ یا ’’تنہا‘‘ کے معنی ہیں’’صرف، ایک اکیلا؛وہ جواکیلا،چھوڑا گیا،خراب حال ہو‘‘یہ بہت تکلیف دہ بات ہے جب ہم سوچتے ہیں کہ ہم اس دنیا میں اکیلے ہیں، ہمارا کوئی دوست نہیں ہے،کوئی ہماری فکر نہیں کرتا ہے،کسی کو پراوہ نہیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے،کسی کو پرواہ نہیں چاہے میں مروں یا جئیو اور کوئی میری قبر پر رونے والا نہیں ہے۔

داوٗد نے تنہائی کو بہت گہرائی سے محسوس کیا۔ داوٗد دل کی گہرائی اورصاف دلی سے انتہائی ناامیدی اور تنہائی میں خد ا کو پکارتا ہے۔اس کا اپنا بیٹا اس کے خلاف اٹھ کھڑاہوتا ہے، اور کچھ بنی اسرائیل اس کے پیچھے پڑے ہیں،اور وہ  شہر بدر ہونے اور اپنے خاندان اور گھر کو چھوڑنے پر مجبور ہے۔اپنی تنہائی اور شکستگی میں (زبور25 : 16) وہ اپنی واحد پناہ گاہ خدا کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس سے رحم کی درخواست کرتا ہے۔ وہ خدا سے مداخلت کی درخواست کرتا ہے (زبور 25: 21)کیونکہ خدا ہی اسکی واحد اُمید ہے۔دلچسپ بات یہ  ہے کہ نئے عہدنامہ میں انسانوں کے لئے لفظ ’’تنہا ‘‘کبھی بھی استعمال نہیں ہوا ہے۔ نئے عہد نامہ میں یہ لفظ ’’تنہا ‘‘ دو بار استعمال ہوا ہے لیکن ویران جگہوں کے لئے (مرقس 1 :45؛لوقا 5: 16)، جب یسوع تنہائی میں دعا کی غرض سے ویران جگہ کو چلا گیا۔

تنہائی کی وجہ کوئی بھی ہو،مسیحیوں کے لئے اس کا ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے مسیح کی تسلی بخش قربت۔ اس مالک کے ساتھ اس محبت بھری رفاقت نےان گنت  لوگوں کو قید بلکہ موت تک گوارہ کرنے کاحوصلہ اور دلیری بخشی ہے۔وہ ایسا دوست ہے جو’’بھائی سے زیادہ مْحبت رکھتا ہے۔‘‘ (امثال 18: 24)،جو اپنے دوستوں کے لئے اپنی جان دیتا ہے(یوحنا 15 : 13۔15)،جس نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ وہ نہ تو کبھی ہمیں چھوڑے گا اور نہ ہی ہم سےدست بردار ہو گا بلکہ دنیا کے آخرہمیشہ ہمارے ساتھ ہے (متی 28: 20)۔ہم اس پرانے گیت کے الفاظ میں تسلی پا سکتے ہیں جس میں اس حقیقت کو بڑے اچھے طور پر بیان کیا گیا  ہے کہ :’’دوست مجھے چھوڑیں، دشمن مجھے گرائیں،وہ ہمیشہ میرے ساتھ ہے۔ہالیلویاہ، کیسا میرا منجی!’‘

1 مسیحی والدین کوایک مسرف بیٹا یا (بیٹی) کے ساتھ بائبل کے مطابق کیسا سلوک کرنا چاہیے

مسیحی والدین کوایک مسرف بیٹا یا (بیٹی) کے ساتھ بائبل کے مطابق کیسا سلوک کرنا چاہیے

مسرف بیٹے کی کہانی میں ایک وارث کا ذکر ملتا ہے جسکو (لوقا15- 11:15) میں بیان کیا گیا ہے۔ کئی ایک اصول ہیں جنہیں ایماندار ماں باپ اپنے ان بچوں کے ردعمل اور برتاؤ کے لئے استعمال کرسکتے ہیں جو انکے راستے کے خلاف چلتے ہیں جنہوں نے انکو پالا پوسا اور بڑا کیا تھا۔ ماں باپ کو بھی یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ انکے بچے بالغ ہوچکے ہیں اور اب وہ ماں باپ کے اختیار میں نہیں رہے۔

مسرف بیٹے کہانی میں چھوٹا بیٹا اپنی وراثت کا حصہ لیکر دورداز ملک کو چلاجاتا ہے اسے عیاشی میں خرچ کردیتا ہے۔ ایسے بچے کے معاملہ میں جو نئے سرے سے پیدا ہؤا ایماندار نہ ہو اس نے ایسا ہی کیا جیسے فطرتاً دیگر بچے کرتے ہیں۔ مگر اس بچہ کے معاملہ میں جسے نے مسیح پر پوری طرح سے ایمان کا اقرار کیا ہو وہ اگر ایسا کرتا ہے تو اس بچہ کو ہم ایک "مسرف” بیٹا کہتا ہیں۔ اس لفظ کے معنی ہیں ” ایک شخص جس نے اپنی ساری آمدنی کے ذرائع یا کمائی کو فضول میں خرچ کردیا ہو”۔ اس عبارت میں ایک لڑکے کا بیان جو اپنا گھر چھوڑ دیتا ہے اور گھر سے دود جاکر نہ صرف اپنے ماں باپ کی دنیوی وراثت کو بلکہ اپنے ماں باپ کی روحانی وراثت کو بھی فضول میں خرچ کرتا ہے جو اس کے ماں باپ نے اس پر خرچ کیا تھا۔ انہوں نے اس کی پرورش کی تھی، تعلیم دی تھی، اپنا پیار دیا تھا۔ اس کی پرواہ کی تھی۔ ان سب کو اس لڑکے نے بھولا کر خدا کے خلاف بغاوت کردی۔ ایک بچہ اگر وہ اپنے ماں باپ کے خلاف بغاوت کرتا ہے وہ سب سے پہلے خدا کے خلاف بغاوت کرتا ہے۔

اس با ت کو نوٹ کریں کہ اس تمشیل میں باپ لڑکے کو گھر چھوڑنے کے اس کے ارادہ پر روکتا نہیں نہ ہی وہ اس کی حفاظت کی کوشش میں اس کا پیچھا کرتا ہے بلکہ اس لڑکے کے ماں باپ ایمان کے ساتھ گھر پر رہ کر اس کے لئے دعا کرتے ہیں اور جب وہ لڑکا "اپنے ہوش میں آتا ہے”۔ اور پیچھے مڑکر دیکھتا ہے اور گھر واپس آتا ہے تو یہی پاتا ہے کہ اس کا باپ اس کے لئے انتظار کر رہا ہوتا اور دوڑ اس کو گلے لگتا ہے کیونکہ اس کا لڑکا "بہت دنوں تک اس سے دور رہا تھا”۔

جب ہمارے جوان بیٹے بیٹیاں اپنے دل مرضی پوری کرنے لگتے ہیں— یہ سوچ کر کہ ہم قانونی طور سے ایسا کرسکتے ہیں — اور سوچتے ہییں کہ کسی طرح نتیجہ تک پہنچ سکتے ہیں تو ماں باپ کو چاہئے کہ انکو جانے دیں اور اپنے سے جدا ہونے دیں۔ ماں باپ کو ان کے پیچھے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور جو انجام انکے سامنے آئے گا اس میں دخل اندازی کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ ماں باپ کو چاہئے کہ ان کے لئے وافاداری سے دعا کرتے رہیں۔ اور اس بات کا انتظار کریں کہ وہ کب توبہ کرینگے، اور جب تک یہ باتیں نہ ہولیں تب تک ماں باپ کو چاہئے کہ آپس میں صلاح مشورہ کریں۔ بغاوت میں انکا ساتھ نہ دیں اور دخل اندازی نہ کریں۔ 1 پطرس15:4

ایک بار جب بچے قانونی طور سے بالغ ہوجاتے ہیں تب وہ صرف خدا کے ماتحت ہوجاتے اور حکومت کے سپرد ہوجاتے ہیں۔ (رومیوں باب 1 ، 7-13)۔ ماں باپ ہونے کے ناتے ہم اپنے مسرف بیٹوں اور بیٹیوں کے لئے دعا میں اور پیار میں انکو سہارا دے سکتے ہیں۔ اور ایک بار جب وہ خدا کی طرف پھرتے ہیں تو انکے ساتھ ہر معاملے میں کھڑے رہ سکتے ہیں۔ خدا اکثر ہم کو ان پرشانیاں کے ذریعے جو ہم خود اپنے فیصلوں سے خود پر لاتے ہیں سپرد کرکے پریشانی جھیلنے کے ذریعہ سے ہم کو عقلمند بناتا ہے۔ اور یہ ہر ایک بالغ شخص کا ذاتی معاملہ ہے کہ ہر ایک حالت کے ردعمل میں اس کا مناسب طور سے جواب دیں۔ ماں باپ ہونے کے ناتے ہم اپنے بچوں کو نہیں بچا سکتے— صرف خدا ہی یہ کرسکتا ہے۔ جب تک وہ وقت آئے ہم کو انتظار کرنا ہے، دعا کرنا ہے اور معاملہ کو خدا کے ہاتھوں سونپنا ہے۔ یہ طریقہ عمل دردناک ثابت ہوسکتا ہے مگر جب اسے بائيبل کے طریقہ سے انجام دیا جا تا ہے تو یہ دل کو تسلی اور دماغی سکون لے آتا ہے۔ ہم اپنے بچوں کا انصاف نہیں کرسکتے مگر خدا کر سکتا ہے۔ خدا کے انصاف میں بڑی تسلی ہوتی ہے۔ "کیا تمام دنیا کا انصاف کرنے والا خدا انصاف نہ کریگا”؟ (پیدایش25:18)۔

جب یسوُع صلیب پر موُا ، تو کیا وہ روحانی طور پر بھی موُا تھا؟

       

جب یسوُع صلیب پر موُا ، تو کیا وہ روحانی طور پر بھی موُا تھا؟      

چند معروُف استادوں کی وجہ سے اِس نکُتہ پر حال ہی میں ایک تضاد اُبھر کر سامنے آیا ہے، جو غلط طور پر اندازہ لگاتے ہیں کہ یسوُع صلیب پر صرف جسمانی موت ہی نہیں مرا بلکہ روحانی طور پر بھی مر گیا تھا۔ وہ کہتے ہیں اِس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے لیے اُس کی محبت کتنی عظیم تھی اور اُس نے اِس کام میں کتنی زیادہ طاقت لگائی کہ اتنا کچھ دے دیا۔ جی ہاں، یہ ایک دلچسپ خیال ہے، لیکن یہ ناممکن ہے، ایک لحاظ سے یہ ایک تضاد ہے۔ تعریف کے مطُابق روُح کبھی نہیں مر سکتی۔ روُح ایک غیرفانی وجوُد ہے۔ بلا شبہ ، خُدا بھی مر نہیں سکتا۔ اگر خُدا مر جاتا تو کائنات بکھر کر رہ جاتی۔ اور یسوُع خُدا ہے۔ اگر یسوُع کا روُح مر جاتا، تو پھر خُدا خود بھی مر جاتااور پوُری کائنات ختم ہو جاتی۔ یہ اُستاد کہتے ہیں کہ ’’موت‘‘ سے اُن کا مطلب خُدا سے جدُائی ہے۔ اُن کے مطابق انسان کی روُح کو بچانے کے لیے یسوُع کی روُح کا مرنا ضروُری تھا۔ تاہم، یسوُع کے لیے خُدا سے جدُا ہونے کے لیے اُسے گنہگار بننا پڑنا تھا۔ لیکن ایک گنہگار ’’ایک بے داغ اور بے عیب برّہ ‘‘نہیں ہو سکتا تھا جسے دنیا کے گناہوں کے لیے پیش کیا جا سکے (پہلا پطرس ۱: ۱۹)۔ اگر یسوُع، خُدا کا بیٹے اور تثلیث کے دوُسرے شخص کو حقیقی معنوں میں روُح میں باپ سے جُدا کیا جاتا تو خُدا کا خود سے جُدا ہو کر وجود ختم ہو جاتا ــ ایک اور ناممکن بات۔ عبرانیوں کی کتاب ہمیں بتاتی ہے : ’’ اِسی لیے وہ دُنیا میں آتے وقت کہتا ہے کہ تُو نے قُربانی اور نذر کو پسند نہ کیا۔ بلکہ میرے لیے ایک بدن تیّار کیا۔ پُوری سوختنی قُربانِیوں اور گناہ کی قُربانِیوں سے تُو خُوش نہ ہُوا۔ اُس وقت میں نے کہا کہ دیکھ! میں آیا ہُوں۔ (کتاب کے ورقوں میں میری نِسبت لکھا ہُؤا ہے) تاکہ اَے خُدا! تیری مرضی پُوری کرُوں۔

اُوپر تو وہ فرماتا ہے کہ نہ تُو نے قُربانیوں اور نذروں اور پُوری سوختنی قُربانیوں اور گناہ کی قُربانیوں کو پسند کیا اور نہ اُن سے خوش ہوُا حالانکہ وہ قُربانیاں شرِیعت کے موافِق گُذرانی جاتی ہیں۔ اور پھِر یہ کہتا ہے کہ دیکھ میں آیا ہُوں تاکہ تیری مرضی پُوری کرُوں۔ غرض وہ پہلے کو موقُوف کرتا ہے تاکہ دُوسرے کو قائِم کرے۔ اُسی مرضی کے سبب سے ہم یِسُوع مسِیح کے جِسم کے ایک ہی بار قُربان ہونے کے وسِیلہ سے پاک کیے گئے ہیں (عبرانیوں ۱۰: ۵ ـ ۱۰)۔ بائبل واضح طور پر کہتی ہے ’’ ہم یسُوع مسِیح کے جِسم کے ایک ہی بار قُربان ہونے کے وسِیلہ سے پاک کیے گئے ہیں‘‘۔ یہ باپ کی مرضی کو پورا کرنے میں اُس کی جسمانی موت ہے جو ہمیں پاک کرتی ہے۔ یسوُع کی انسانیت نے جو گناہ سے واقف نہ تھی، پوُری انسانیت کے گناہوں کا دردناک مزہ چکھا۔

اُسے قرُبانی کا برّہ بنا کر خُدا کے حضُور پیش کیا گیا تا کہ ہمارے تمام گناہوں کی قیمت ادا کرے۔ اپنی جسمانی موت کے بعد اور جی اُٹھنے سے پہلے یسوُع کی روُح عالم ِ رواح میں اتُر گئی اور وہاں موجوُد قیدی روُحوں میں منادی کی جو وہاں قید تھیں۔ (دیکھیے پہلا پطرس ۳: ۱۸ ـ ۲۰)۔ اُس کی روُح نہ تو مری تھی اور نہ ہی وہ خُدا سے جُدا ہوُئی تھی۔ اِس کے بجاے وہ باپ کو خوش کرنے اور اُس کی خدمت کرتا رہا جیسا وہ آج بھی کرتا ہے۔

کیا یہ جواب آپ کے لیے مددگار ثابت ہوُا؟ ہاں / نہیں