بائبل کس نے لکھی؟ 

بائبل کس نے لکھی‘‘ ایک ایسا سوال ہے جسے بلا شبہ بے شمار لوگ پوچھتے ہیں،جو اُس تاثر سے واقف ہیں جو پوُری دنیا کے  لوگوں پر بائبل نے چھوڑا ہے ۔ بائبل ہمیں زندگی سے ابدئیت تک کے سفر میں رہنمائی مہیا کرتی ہے اور ساتھ ہی کائنات کے خُدا سے تعلق قائم کرنے کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ ایک تاریخی کتاب ہے جِس کی پشت پناہی علمِ الآثار ِ قدیمہ کرتا ہے ، اور یہ نبوت کی وہ کتاب ہے جو اپنے تمام بیانات پر اب تک ہمیشہ سے پوُرا اُترتی رہی ہے۔ اِن حقائق کی روشنی میں یہ پوُچھنا ’’بائبل کس نے لکھی ہے‘‘ ایک اہم سوال بن جاتا ہے، اور حق بنتا ہے کہ اِس کی سنجیدہ تفتیش کی جاےاور سنجیدہ جواب دیا جاے۔ بائبل انسانیت کے لیے خُدا کا ایک خط ہے جو ۶۶ کتُب پر مشتمل ہے اور جسے ۴۰ مصنفوں نے لکھا ہے جنہیں یہ روحانی الہام حاصل ہُوا۔ یہ مُصنفین زندگی کے ہر طبقہ سے آئے تھے (جیسے کہ بادشاہوں سے لے کر ماہی گیروں تک) اور یہ ۱۵۰۰ سے زیادہ برسوں کے عرصہ پر محیط ہے۔ بظاہر اِس میں درج دعوے ڈرامائی (یا کچھ کے لیے غیر حقیقی ) ہو سکتے ہیں ، لیکن بائبل کے حوالوں کو بغور دیانتداری سے پڑھنے کے بعد آپ پر اِنکی سچائی ظاہر ہو سکتی ہے۔

  اس سوال کا جواب یقیناً بائبل کے مسودات کی بیرونی اور اندرونی شہادتوں اور دعٰووں کی روشنی میں جانچنے سے بھی دیا جا سکتا ہے۔ دوُسرا تیمتھیُس۳ :۱۶ بیان کرتا ہے ’’ ہر ایک صحِیفہ جو خُدا کے اِلہام سے ہے…‘‘ دوسرا پطرس ۱ : ۲۰ ـ ۲۱، میں پطرس پڑھنے والوں کو یاد دِلاتا ہے ’’ اور پہلے یہ جان لو کہ کتابِ مقدّس کی کسی نُبُوّت کی بات کی تاوِیل کسی کے ذاتی اِختیار پر موقُوف نہیں… کیونکہ نُبُوّت کی کوئی بات آدمی کی خواہِش سے نہیں ہُوئی بلکہ آدمی رُوحُ القدُس کی تحریک کے سبب سے خُدا کی طرف سے بولتے تھے۔ ‘‘۔بائبل خود ہمیں بتاتی ہے کہ وہ خُدا ہی ہے جو اِس کتاب کا مصنف ہے۔ خُدا بائبل میں اپنے ہاتھ کے کام کو ہمارے لیے محض دعٰوں کی حد تک نہیں چھوڑتا بلکہ قائل کر دینے والی شہادتیں بھی پیش کرتا ہے۔ بائبل کا اپنا مرُتب کردہ نمونہ ہی اَز خود ایک معجزہ ہے۔ ۱۵۰۰ برسوں میں دوُر دراز کے الگ الگ مصنفوں کے ہاتھوں سے لکھی گئی، اِس کے باوجوُد بائبل میں موجوُد ہر کتاب اپنے پیغام میں ایک تسلسل برقرار رکھتی ہے۔ یہ ۶۶ کتابیں تاریخ، نبوّت، شاعری، اور روحانی تعلیم کے بارے میں بتاتی ہیں ۔ اِن کی پیچیدگی، لکھنے کے الگ الگ انداز اور طویل دورانیہ کے باوجوُد بائبل کی یہ کتابیں اپنے مضموُن، حقائق اور حوالوں میں یکسانیت ظاہر کرتی ہیں.

  کوئی انسان کتابوں کے اِس پیچیدہ مجموُعہ کو ۱۵۰۰ سال کے طویل عرصہ میں کبھی تیار نہیں کر سکتا تھا ۔ بائبل کے مسودے (یاد رہے سال ۱۶۵۵تک چھپائی  کے لئے کوئی پریس نہیں تھے) موسموں کی شدت، سختیوں اور وقتوں کی طوالت کے باوجوُد اب تک قائم ہیں۔ مثال کے طور پر بحر ِ مردار میں پاے جانے والے طوُماروں میں پُرانے عہد نامہ کی کتابیں شامل ہیں، سواے آستر کی کتا ب کے ، اور جو مسیح کے دور سے پہلے کی بتائی جاتی ہیں۔ جوُلیس سیِزر کی  جنگوں پر غور کریں۔ اِن واقعات کی تاریخ میں ۱۰۰۰ سال کے عرصہ میں صر ف دس جلدیں لکھی گئیں۔ اِس کے برعکس مسیح کے بعد ۲۴ سالوں کے عرصہ میں ۲۴۰۰۰ سے زیادہ نئے عہد نامہ کے مسودے تحریر کیے گئے۔ پیشن گوئیوں کے پوُرا ہونے کے ذریعہ سے بائبل مصنفین کی روُحانیت کے تقاضےکو پوُرا اور ثابت بھی کرتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر اب تک بائبل کی ۶۶۸ پیشن گوئیاں پوُری ہوُئی ہیں اور آج تک ایک بھی غلط ثابت نہیں ہوئی ۔ بائبل کی پیشن گوئیوں کو دیانتدری سے پڑھا جاے تو آپکو بائبل کی روحانیت میں مسُتند کتاب طور پر لکھے جانے کا پتہ چلتا ہے۔ اِس سے بڑھ کر بائبل میں موجود واقعات کی  آثارِ قدیمہ کے ماہرین تصَدیق کرتے ہیں۔ شہادتوں کی تعداد اور اِس کی تصنیف کے مقُدس ہونے میں کوئی اور پاک کتاب بائبل کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتی۔ بائبل کس نے لکھی ــ ابدی اہمیت کا ایک سوال ہے۔ یقیناًً ایسا سوال ہے جو ہر کسی کو پوُچھنا چاہیے۔ اگر یہ حقیقت میں زندہ خُدا کا کلام ہے ، تو پھر اور کوئی کتاب ہماری زندگی پر اِس سے زیادہ روشنی نہیں ڈال سکتی، نہ ہی ہمیں مسُتقبل کے لیے اُمید بخش سکتی ہے اور نہ ہی کوئی کتاب خُدا کے ساتھ تعلق قائم رکھنے کے لیے اِس طرح کی حقیقی راہ دیکھا سکتی ہے۔ کشادہ دلی اور دیانتداری سے بائبل کی کھوج کریں اور خود دیکھیں کہ کائنات کا خالق آپ سے کیا کہنا چاہتا ہے!

 بائبل کی تاریخ : ، یہ تاریخ کے غیرمعموُلی اندراج سے شروُع ہوتی ہے! یہ کوئی ایک کتاب نہیں ہے جیسا میں ہمیشہ سوچتا رہا تھا ــ یہ تحریروں کا قدیم مجموُعہ۱۵۰۰ قبل از مسیح میں لکھی گئیں، اور نئے عہد نامہ میں ۲۷ کتُب ہیں جو تقریباً ۴۰ سے ۹۰ بعد از مسیح کے دور میں لکھی گئیں۔ ہے ،  تاریخ یہودیوں کی مقد س کتاب سے شروُع ہوتی ہے۔ یہوُدیوں کے تاریخی انِدراج صدیوں پر محیط عرصہ میں چمڑے کے طوُماروں اور پتھر کی لوحوں پر تحریر کیے جاتے تھے، اور مُصنِفوں میں بادشاہ، چرواہے، انبیا اور دوُسرے رہنُما ہوتے تھے۔ پہلی ۵ کتابیں شریعت کہلاتی ہیں جن کی تحریر و تدوین ۱۴۰۰ قبل از مسیح میں بنیادی طور پر موُسیٰ نے کی تھی۔ اِس کے بعد کئی اور الہامی مسودات یہودی لوگوں نے اگلے ۱۰۰۰ برسوں میں لکھے اور یکجا کیے۔ تقریباً ۴۵۰ قبل مسیح میں شریعت اور یہوُدی مسودات کو ربیّوں کی کونسل (یہوُدی اُستادوں) نے ترتیب دیا ، جنہوں نے بعد میں اِس مکمل مجموعہ کو الہامی اور خُدا (الوہیم) کے مقدس اختیار کے طور پر تسلیم کیا۔ اِسی دوران کسی وقت عبرانی بائبل کو بشمول شریعت (توریت) کے ، عنوانوں کے لحاظ سے ترتیب دیا گیا، انبیا کو ( نبِیم ) اور تحریروں کو (کِتوُبیم) کہا گیا۔ عبرانی الفاظ کے پہلے حروُف ’ٹی‘، ’ این‘ اور’ کے‘ عبرانی بائبل کے نام کو شکل دیتے ہیں ــ)

 ابتدائی دور کے ۲۵۰ قبل مسیح میں اِس کا ترجمہ یونانی زبان میں ، اسکندریہ میں، مصر کے یہوُدی عالموں سے کرایا گیا۔ یہ ترجمہ ہفتادی ترجمہ کے نام سےجانا گیا اور اِس کے معنی ہیں ۷۰، اور اُس روایت کا حوالہ دیتا ہے کہ ۷۰ (یا شاید ۷۲ ) لوگوں نے ملکر اِس کا ترجمہ کیا ہے۔ : تاریخ (پیدائش ــ آستر)، شاعری (ایوب ــ غزلالغزلات)، اور انبیا کے صحیفے (یسعیاہ ــ ملاکی و دیگر )۔ )

  اگرچہ یہودی مسودوں کی ہاتھ سے لکھ کر نقل کی گئی تھی تو بھی وہ انتہائی درُست نقل تھے۔ یہودیوں کے پاس فقیہوں کا  غیرمعمولی نظام ہے، جنہوں نے حرف ، الفاظ اور عبارتیں گنتی کرنے کا ایک پیچیدہ اور رسموں پر مبنی طریقہ تیار کیا تاکہ اِس مقدس کتاب کی درستگی قائم رہ سکے۔ کیونکہ نقل کرتے ہوُے ایک چھوٹی سی غلطی بھی پوُرے طوُمار کو فوری تباہ کرنے کا موجب بن سکتی ہے۔ در اصل یہوُدی فقیہوں کی یہ روایت ۱۴۰۰ سال بعد از مسیح کے درمیانی عرصہ میں چھاپہ خانوں کی ایجاد تک قائم رہی۔ جہاں تک مسودوں کی درستگی کا سوال ہے ، بحر مر دار کی حالیہ دریافت نے ہزاروں برسوں پر محیط فقیہوں کے نظام کی نمایاں تصدیق کی ہے ۔

 ۴۰۰ برسوں پر مبنی الہامی عبارتوں کی خاموشی کے بعد ، ۴ قبل مسیح میں یسوُع منظر عام پر آگیا ۔ اپنی پوُری تعلیم میں یسوُع نے پُرانے عہد نامہ کا بارہا حوالہ دیا ہے، یہ اعلان کرتے ہوُے کہ وہ یہودی بائبل کو منسوخ کرنے نہیں آیا، بلکہ اُنہیں پوُرا کرنے آیا ہے۔ لوُقا کی کتاب میں یسوع اپنے شاگردوں کے آگے بیان کرتا ہے ’’اُن تمام باتوں کا پوُرا ہونا ضروُری ہے جو میرے بارے میں موُسیٰ کی شریعت ، زبوُر اور نبیوں کی معرفت کہی گئی ہیں ‘‘۔

: مسیح سے شروع ہو کر ۹۰ بعد از مسیح تک ، یسوُع مسیح کی زندگی کے عینی گواہان

یوحنا، متی ،لوقا ، مرقس اورپولُس، یعقوب، پطرس اور یہوداہ نے اِنجیلیں، خطوُط اور کتابیں لکھیں جو بائبل کا نیا عہد نامہ بنیں۔ یہ مُصنفین اپنی  کتابوں میں ۳۱ دفعہ  پُرانے عہد نامہ کا حوالہ دیتے ہیں، اور انہوں نے اپنے اِس مواد کو اِس قدر وسیع پیمانے پر پھیلایا کہ ۱۵۰ بعد از مسیح میں ابتدائی مسیحی اِس تحریر کے مکمل مجموُعہ کو ’’نیا عہد‘‘ کہ کر پکارتے تھے۔ ۲۰۰ بعد از مسیح کے دوران اصل تحریروں کا ترجمہ یونانی سے لاطینی، (مصر کی)قبطی زبان، (شام کی)  سریانی زبان میں ہوُا، جو وسیع پیمانے پر رومی سلطنت اور اُس سے آگے بھی ’’الہامی کتاب‘‘ کے طور پر پہچانا گیا ۔آج پوری دنیا کی مختلف زبانوں میں  مکمل بائبل یا اسکے مختلف حصوں کے تراجم ماجود ہیں اور دستیاب ہے ۔

کیا یہ جواب آپ کے لیے مددگار ثابت ہوُا؟ ہاں / نہیں