گواھیاں

E.U.(ای ۔ یو ) کہتا ہے: میں ایک مسلمان تھا. میں اس اعلیٰ صفحہ کے لئے آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں. میں پابند اور اندھیرے میں تھا اور میں جانتا تھا کہ یہ باتیں مجھ میں اسلام کی وجہ سے تھیں. چند مہینے قبل، میں نے اپنے دماغ اور آنکھوں پر سے اُسے ختم کرنے کا آغاز کیا اور اب میں بائبل پڑھ رہا ہوں کیونکہ میں جاننا چاہتا ہوں کہ ایک مسیحی ہوتے ہوئے آپکی محبت کیسی ہے. اور میں آپ کے ساتھ مطمین ہوں. میں یسوع مسیح کو بطور اپنا خداوند قبول کرنا چاہتا ہوں. “

A.A.( اے ۔اے) یہ کہتا ہے: "اگرچہ میں مسلمان تھا پھر بھی میں اس صفحہ سے روحانی فیض حاصل کرتا تھا. میں مسیحت سے محبت کرتا ہوں کیونکہ یہ عظیم ہے اور معافی کی بات کرتی ہے. مجھے جواب دینے کا شکریہ. کیونکہ میں ایک طویل عرصے سے  یسوع کے بارے میں پوچھ رہا تھا اور کس طرح اس نے صلیب کے وسیلے لوگوں کو مخلصی دی، لہذا آپ کےجواب نے میرے دل کو سکون سے بھر دیا … اسلام میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو منطقی نہیں ہیں اور میں انہیں قبول نہیں کرسکتا، اور یہ چیزیں مجھے یسوع کے پاس آنے کے لئے حوصلہ بخشتیں  ہیں. "

 ریٹا پالز

"مسیح میں میری بہن میں آپ سے پیار کرتی ہوں. آپ کی تعلیمی خدمت  میرے لئے خشک سالی میں ایسی آسمانی  بارش کی مانند آئی سے جس سے خواھش کرتی ہوں کہ  مجھے نیا  غلہ ، نئی مے ملے اور میں بھی نئی ہو جاٴوں ، !خداوند ہمارے خدا کا کرم آپ پر ہو اور وہ آپکے ہاتھوں کے کاموں کو قائم کرے. "

 ڈیانا سوریوک

"واہ … جیسے ہی میں نے دعا کی، میرے آنسو بہنے لگے. میں نے اُس سے پوچھا کہ وہ میرے اندر سے جھوٹ  کو جڑ سے کاٹ ڈالے جس کے بارے میں، میں بھی نہیں جانتی کہ ان کا وجود ہے. میں آزاد رہنا چاہتی ہوں اور وہ بننا چاھتی ہوں جو وہ کہتا ہے میں ہوں. دن اور سال. بہت تیزی سے گزرتے ہیں۔ اے باپ ، میں بہت خوش ہوں کہ آپ مجھے جانے نہیں دیں گے. آپ نے جو کام مجھ پر شروع کیا آپ اُسے مکمل کریں گے۔ اسک آپ کی پوسٹ کا شکریہ. "

یسو ع کو کیسے جانیں ؟

یسو ع کو کیسے جانیں ؟

( یسوع کی پیروی کرنے کے بارے میں اپنا فیصلہ نیچے دئیے گئے حصہ میں لکھ کر بتائیں )

یسوع مسیح اس دنیا میں آیا، اُس نے صلیب پرجان دی اور قبر میں سے جی اُٹھا تاکہ آپ خداباپ کے ساتھ اپنا رشتہ

اُستوار کر سکیں۔ خدا تعالیٰ آپ سے اس قدر پیار کرتا ہے کہ اُس نے ۲،۰۰۰ ہزار سال قبل اپنے اکلوتے بیٹے کو بھیجا کہ

وہ اپنی جان دے تاکہ خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ شخصی تعلق قائم کر سکے۔اُس نےآپ کو اس دنیا میں حادثاتی طور نہیں

رکھا، بلکہ اس مقصد کےساتھ کہ آپکی زندگی سے اُس کو جلال ملے۔ اُس نے آپ کو عظیم کاموں کو سرانجام دینے کےلئے

بلایا ہے جس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے !

یسوع کو اپنے دل میں قبول کرنا مسیح کے ساتھ نئی زندگی شروع کرنے کا پہلا قدم ہے۔ خدا کے بچے طور پر آپ اُسکے

کلام میں بیان کی گئیں سب روحانی برکات کے وارث ہیں جس میں مسیح کے وسیلےہمیشہ کی زندگی بھی شامل ہے ۔ کیا

آپ اپنی زندگی میں مافوق الفطرت تبدیلی کے لئے تیار ہیں جس کے آپ آرزو مند رہے ہیں؟ تو پھر آج اپنے دل میں مسیح

یسوع کو قبول کریں!

اگر آپ نے ابھی تک یسوع کو اپنا خداوند اور نجات دھندہ قبول نہیں کیا اور اگر اب تیار ہیں تو نیچے لکھی گئی دُعا بلند

آواز سےمانگیں:

پیارے خداوند یسوع ،

میں ایک گنہگار ہوں اور مجھےآپ کی ضرورت ہے۔ مجھے اپنی زندگی میں آپکے اطمینان کی ضرورت ہے۔ اے باپ ، میں

ایمان رکھتا ہوں کہ یسوع صلیب پر میرے گناھوں کے لئے مُوا اور وہی خدا کا بیٹا ہے ۔ میں ایمان رکھتا ہوں کہ وہ مُردوں

میں سے جی اُٹھا او آسمان پر تخت نشین ہے۔ اے خداوند میں اپنے گناھوں سے توبہ کرتا ہوں اور آپ میرے دل میں آئیں

اور سچائی کی طرف میری راھنمائی کریں۔ اے باپ مجھے پاک صاف کرکے اپنے میں نیا بنادیں۔ میں آپکا شکریہ ادا کرتا

ہوں اور یہ دُعا یسوع کے نام سے مانگتا ہوں ۔

آمین۔

کیا آپ نے یسوع کو قبول کرنے کی دُعا کی ؟

  بائبل کس نے لکھی؟ 

                               بائبل کس نے لکھی؟

  خدُا کی طرف سے ایک خط ــ ’’بائبل کس نے لکھی‘‘ ایک ایسا سوال ہے جسے بلا شبہ بے شمار لوگ پوچھتے ہیں،جو اُس تاثر سے واقف ہیں جو پوُری دنیا کے لوگوں پر بائبل نے چھوڑا ہے ۔ بائبل ہمیں زندگی سے ابدئیت تک کے سفر میں رہنمائی مہیا کرتی ہے اور ساتھ ہی کائنات کے خُدا سے تعلق قائم کرنے کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ ایک تاریخی کتاب ہے جِس کی پشت پناہی علمِ الآثار ِ قدیمہ کرتا ہے ، اور یہ نبوت کی وہ کتاب ہے جو اپنے تمام بیانات پر اب تک ہمیشہ سے پوُرا اُترتی رہی ہے۔ اِن حقائق کی روشنی میں یہ پوُچھنا ’’بائبل کس نے لکھی ہے‘‘ ایک اہم سوال بن جاتا ہے، اور حق بنتا ہے کہ اِس کی سنجیدہ تفتیش کی جاےاور سنجیدہ جواب دیا جاے۔ بائبل انسانیت کے لیے خُدا کا ایک خط ہے جو ۶۶ کتُب پر مشتمل ہے اور جسے ۴۰ مصنفوں نے لکھا ہے جنہیں یہ روحانی الہام حاصل ہُوا۔ یہ مُصنفین زندگی کے ہر طبقہ سے آئے تھے (جیسے کہ بادشاہوں سے لے کر ماہی گیروں تک) اور یہ ۱۵۰۰ سے زیادہ برسوں کے عرصہ پر محیط ہے۔ بظاہر اِس میں درج دعوے ڈرامائی (یا کچھ کے لیے غیر حقیقی ) ہو سکتے ہیں ، لیکن بائبل کے حوالوں کو بغور دیانتداری سے پڑھنے کے بعد آپ پر اِنکی سچائی ظاہر ہو سکتی ہے۔

 بائبل کس نے لکھی ــ روحانی تحریک کی شہادت ہے، ’’بائبل کس نے لکھی ‘‘ ایسا سوال ہے جِس کاجواب یقیناً بائبل کے مسودات کو بیرونی شہادتوں اور دعٰووں کی روشنی میں جانچنے سے دیا جا سکتا ہے۔ دوُسرا تیمتھیُس۳ :۱۶ بیان کرتا ہے ’’ ہر ایک صحِیفہ جو خُدا کے اِلہام سے ہے…‘‘ دوسرا پطرس ۱ : ۲۰ ـ ۲۱، میں پطرس پڑھنے والوں کو یاد دِلاتا ہے ’’ اور پہلے یہ جان لو کہ کتابِ مقدّس کی کسی نُبُوّت کی بات کی تاوِیل کسی کے ذاتی اِختیار پر موقُوف نہیں… کیونکہ نُبُوّت کی کوئی بات آدمی کی خواہِش سے نہیں ہُوئی بلکہ آدمی رُوحُ القدُس کی تحریک کے سبب سے خُدا کی طرف سے بولتے تھے۔ ‘‘۔بائبل خود ہمیں بتاتی ہے کہ وہ خُدا ہی ہے جو اِس کتاب کا مصنف ہے۔ خُدا بائبل میں اپنے ہاتھ کے کام کو ہمارے لیے محض دعٰوں کی حد تک نہیں چھوڑتا بلکہ قائل کر دینے والی شہادتیں بھی پیش کرتا ہے۔ بائبل کا اپنا مرُتب کردہ نمونہ ہی اَز خود ایک معجزہ ہے۔ ۱۵۰۰ برسوں میں دوُر دراز کے الگ الگ مصنفوں کے ہاتھوں سے لکھی گئی، اِس کے باوجوُد بائبل میں موجوُد ہر کتاب اپنے پیغام میں ایک تسلسل برقرار رکھتی ہے۔ یہ ۶۶ کتابیں تاریخ، نبوّت، شاعری، اور روحانی تعلیم کے بارے میں بتاتی ہیں ۔ اِن کی پیچیدگی، لکھنے کے الگ الگ انداز اور طویل دورانیہ کے باوجوُد بائبل کی یہ کتابیں اپنے مضموُن، حقائق اور حوالوں میں یکسانیت ظاہر کرتی ہیں.

  کوئی انسان کتابوں کے اِس پیچیدہ مجموُعہ کو ۱۵۰۰ سال کے طویل عرصہ میں کبھی تیار نہیں کر سکتاتھا ۔ بائبل کے مسودے (یاد رہے سال ۱۶۵۵تک چھپائی کے لئے کوئی پریس نہیں تھے) موسموں کی شدت، سختیوں اور وقتوں کی طوالت کے باوجوُد اب تک قائم ہیں۔ سب سے پُرانی تحریریں جو ایک نازک سے کاغذ پر لکھی گئی تھیں وہ سب کی سب غائب ہو چکی ہیں۔ تو بھی نئے عہد نامہ کی عبارتوں کی جِلدیں اب بھی بچی ہوُئی ہیں۔ مثال کے طور پر بحر ِ مردار میں پاے جانے والے طوُمار وں میں پُرانے عہد نامہ کی کتابیں شامل ہیں، سواے آستر کی کتا ب کے ، اور جو مسیح کے دور سے پہلے کی بتائی جاتی ہیں۔ جوُلیس سیِزر کی فرانسیسی جنگوں پر غور کریں۔ اِن واقعات کی تاریخ میں ۱۰۰۰ سال کے عرصہ میں صر ف دس جلدیں لکھی گئیں۔ اِس کے برعکس مسیح کے بعد ۲۴ سالوں کے عرصہ میں ۲۴۰۰۰ سے زیادہ نئے عہد نامہ کے مسودے تحریر کیے گئے۔ پیشن گوئیوں کے پوُرا ہونے کے ذریعہ سے بائبل مصنفین کی روُحانیت کے تقاضےکو پوُرا اور ثابت بھی کرتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر اب تک بائبل کی ۶۶۸ پیشن گوئیاں پوُری ہوُئی ہیں اور آج تک ایک بھی غلط ثابت نہیں ہوئی (اِن میں سے ۳ غیر تصدیق شدُہ ہیں)۔ بائبل کی پیشن گوئیوں کو دیانتدری سے پڑھا جاے تو آپکو بائبل کی روحانیت میں مسُتند کتاب طور پر لکھے جانے کا پتہ چلتا ہے۔ اِس سے بڑھ کر بائبل میں موجود آثارِ قدیمہ کے اندراجات اِس کی تصَدیق کرتے ہیں۔ شہادتوں کی تعداد اور اِس کی تصنیف کے مقُدس ہونے میں کوئی اور پاک کتاب بائبل کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتی۔ بائبل کس نے لکھی ــ ابدی اہمیت کا ایک سوال ہے۔ ’’بائبل کس نے لکھی‘‘ یقیناًً ایسا سوال ہے جو ہر کسی کو پوُچھنا چاہیے۔ اگر یہ حقیقت میں زندہ خُدا کا کلام ہے ، تو پھر اور کوئی کتاب ہماری زندگی پر اِس سے زیادہ روشنی نہیں ڈال سکتی، نہ ہی ہمیں مسُتقبل کے لیے اُمید بخش سکتی ہے اور نہ ہی کوئی کتاب خُدا کے ساتھ تعلق قائم رکھنے کے لیے اِس طرح کی حقیقی راہ دیکھا سکتی ہے۔ کشادہ دلی اور دیانتداری سے بائبل کی کھوج کریں اور خود دیکھیں کہ کائنات کا خالق آپ سے کیا کہنا چاہتا ہے!

 بائبل کی تاریخ ، یہ تاریخ کے غیرمعموُلی اندراج سے شروُع ہوتی ہے! یہ کوئی ایک کتاب نہیں ہے جیسا میں ہمیشہ سوچتا رہا تھا ــ یہ تحریروں کا قدیم مجموُعہ ہے ، جسے ۶۶ مختلف کتُب پر مشتمل۱۶۰۰، سے زیادہ برسوں میں تقریباً ۴۴ مختلف مُصنفِوں نے تحریر کیا ہے۔ پرُانے عہد نامہ میں ۳۹ کتُب شامل ہیں جو ۴۰۰ سے ۱۵۰۰ قبل از مسیح میں لکھی گئیں، اور نئے عہد نامہ میں ۲۷ کتُب ہیں جو تقریباً ۴۰ سے ۹۰ بعد از مسیح کے دور میں لکھی گئیں۔ یہوُدیوں کی بائبل (تناخ) مسیحیوں کے نئے عہد نامہ جیسی ہی ہیں، سوِائے اِس کی کتابوں کی ترتیب کے۔ اَصل پُرانا عہد نامہ تھوڑی بہت اِرامی زبان کی شمولیت کے ساتھ عبرانی زبان میں تحریر کیا گیا تھا جبکہ نیا عہد نامہ عام یونانی زبان میں لکھا گیا تھا۔

   بائبل‘‘ کی تاریخ یہودیوں کی مقد س کتاب سے شروُع ہوتی ہے۔ یہوُدیوں کے تاریخی انِدراج صدیوں پر محیط عرصہ میں چمڑے کے طوُماروں اور پتھر کی لوحوں پر تحریر کیے جاتے تھے، اور مُصنِفوں میں بادشاہ، چرواہے، انبیا اور دوُسرے رہنُما ہوتے تھے۔ پہلی ۵ کتابیں شریعت کہلاتی ہیں جن کی تحریر و تدوین ۱۴۰۰ قبل از مسیح میں بنیادی طور پر موُسیٰ نے کی تھی۔ اِس کے بعد کئی اور الہامی مسودات یہودی لوگوں نے اگلے ۱۰۰۰ برسوں میں لکھے اور یکجا کیے۔ تقریباً ۴۵۰ قبل مسیح میں شریعت اور یہوُدی مسودات کو ربیّوں کی کونسل (یہوُدی اُستادوں) نے ترتیب دیا ، جنہوں نے بعد میں اِس مکمل مجموعہ کو الہامی اور خُدا (الوہیم) کے مقدس اختیار کے طور پر تسلیم کیا۔ اِسی دوران کسی وقت عبرانی بائبل کو بشمول شریعت (توریت) کے ، عنوانوں کے لحاظ سے ترتیب دیا گیا، انبیا کو ( نبِیم ) اور تحریروں کو (کِتوُبیم) کہا گیا۔ عبرانی الفاظ کے پہلے حروُف ’ٹی‘، ’ این‘ اور’ کے‘ عبرانی بائبل کے نام کو شکل دیتے ہیں ــ ’تناخ‘۔ (۱)

 ابتدائی دور کے ۲۵۰ قبل مسیح میں اِس کا ترجمہ یونانی زبان میں ، اسکندریہ میں، مصر کے یہوُدی عالموں سے کرایا گیا۔ یہ ترجمہ ہفتادی ترجمہ کے نام سےجانا گیا اور اِس کے معنی ہیں ۷۰، اور اُس روایت کا حوالہ دیتا ہے کہ ۷۰ (یا شاید ۷۲ ) لوگوں نے ملکر اِس کا ترجمہ کیا ہے۔ اس عمل کے دوران ہی اِس کی کتابوں کی ترتیب میں ردوبدل کیا گیا اور یہی ترتیب آج کی بائبل میں ہمارے درمیان موجود ہے: تاریخ (پیدائش ــ آستر)، شاعری (ایوب ــ غزلالغزلات)، اور انبیا کے صحیفے (یسعیاہ ــ ملاکی)۔ (۲)

  اگرچہ یہودی مسودوں کی ہاتھ سے لکھ کر نقل کی گئی تھی تو بھی وہ انتہائی درُست نقل تھے۔ یہودیوں کے پاس فقیہوں کا غیرمعمولی نظام ہے، جنہوں نے حرف ، الفاظ اور عبارتیں گنتی کرنے کا ایک پیچیدہ اور رسموں پر مبنی طریقہ تیار کیا تاکہ اِس مقدس کتاب کی درستگی قائم رہ سکے۔ کیونکہ نقل کرتے ہوُے ایک چھوٹی سی غلطی بھی پوُرے طوُمار کو فوری تباہ کرنے کا موجب بن سکتی ہے۔ در اصل یہوُدی فقیہوں کی یہ روایت ۱۴۰۰ سال بعد از مسیح کے درمیانی عرصہ میں چھاپہ خانوں کی ایجاد تک قائم رہی۔ جہاں تک مسودوں کی درستگی کا سوال ہے ، بحر مر دار کی حالیہ دریافت نے ہزاروں برسوں پر محیط فقیہوں کے نظام کی نمایاں تصدیق کی ہے ۔ (۳) (بحر مردار کے طوُمار پر میں بعد میں بات کروُنگا)۔

 ۴۰۰ برسوں پر مبنی الہامی عبارتوں کی خاموشی کے بعد ، ۴ قبل مسیح میں یسوُع منظر عام پر آگیا ۔ اپنی پوُری تعلیم میں یسوُع نے پُرانے عہد نامہ کا بارہا حوالہ دیا ہے، یہ اعلان کرتے ہوُے کہ وہ یہودی بائبل کو منسوخ کرنے نہیں آیا، بلکہ اُنہیں پوُرا کرنے آیا ہے۔ لوُقا کی کتاب میں یسوع اپنے شاگردوں کے آگے بیان کرتا ہے ’’اُن تمام باتوں کا پوُرا ہونا ضروُری ہے جو میرے بارے میں موُسیٰ کی شریعت ، زبوُر اور نبیوں کی معرفت کہی گئی ہیں ‘‘۔ ۴

 بعد از مسیح سے شروع ہو کر ۹۰ بعد از مسیح تک ، یسوُع مسیح کی زندگی کے عینی گواہان میں متّی، مرقس، لوُقا،

یوحنا، پولُس، یعقوب، پطرس اور یہوداہ نے اِنجیلیں، خطوُط اور کتابیں لکھیں جو بائبل کا نیا عہد نامہ بنیں۔ یہ مُصنفین اپنی ۳۱ کتابوں میں پُرانے عہد نامہ کا حوالہ دیتے ہیں، اور اپنے اِس مواد کو اِس قدر وسیع پیمانے پر پھیلایا کہ ۱۵۰ بعد از مسیح میں ابتدائی مسیحی اِس تحریر کے مکمل مجموُعہ کو ’’نیا عہد‘‘ کہ کر پکارتے رہے۔ ۲۰۰ بعد از مسیح کے دوران اصل تحریروں کا ترجمہ یونانی سے لاطینی، (مصر کی)قبطی زبان، (شام کی) سریانی زبان میں ہوُا، جو وسیع پیمانے پر رومی سلطنت اور اُس سے آگے بھی ’’الہامی کتاب‘‘ کے طور پر پہچانا گیا۔ (۵). ۳۹۷ بعد از مسیح میں اِس کی حفاظت کرنے کی کوشش میں اِس کی حتمی اور سرکاری طور پر تصدیق کی گئی اور اور قرطاج کی کونسل میں اِس کی تقدیس کی گئی۔ (۶)

مزید پڑھیے! (۱) ہینری ایچ ہیلی، ہیلی کا بائبل پر مبنی کتابچہ، پچیسویں اشاعت، زونڈروین پبلشنگ ہاؤس، ۲۰۰ِ، ۱۰۷۱۔ (۲). آئی بی آئی ڈی۔ (۳) ذونڈروین کے بائبل پر مبنی کتابچے، ذونڈر وین پبلشنگ ہاؤس، ۱۹۹۹، ۶۴ ــ ۶۵۔ (۴) لوقا ۲۴: ۴۴، بائبل مقدس، تھامس نیلسن پبلشرز، ۱۹۸۲۔ (۵). ایف. ایف. بروُس ، نئے عہد نامہ کی دستاویز : کیا یہ با اعتماد ہیں؟ پانچویں اشاعت، اِنٹراوارسٹی پریس، ۱۹۶۰، ۲۱ ــ ۲۸۔ (۶).آئی بی آئی ڈی، ۲۷۔

کیا یہ جواب آپ کے لیے مددگار ثابت ہوُا؟ ہاں / نہیں

  مسیح کا کنواری سے پیدا ہونا کیا معنی رکھتا ہے ؟

                   مسیح کا کنواری سے پیدا ہونا کیا معنی رکھتا ہے ؟

یسعیاہ کی کتاب میں میں بائبل بتاتی ہے کہ خُدا ہمیں ایک نشان بخشے گا: ’’ دیکھو ایک کُنواری حامِلہ ہو گی اور بیٹا پَیدا ہو گا‘‘ (یسعیاہ ۷: ۱۴)۔یہ لفظ جسے ہم ’’کنواری‘‘ ترجمہ کرتے ہیں عبرانی میں ’’َالماہ‘‘ ہے جِس کے معنی ’’کنواری یا نوجوان عورت‘‘ ہے۔ اِس لفظ کا ترجمہ ’’کنواری‘‘ اِس لیے کیا گیا ہے کیونکہ نوجوان عورت کا بچے کو جنم دینا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے، اِس لیے وہ کوئی نشان نہ ہوتا۔ لیکن نئے عہد نامہ میں یونانی لفظ ’الماہ‘ کا ترجمہ ’پیرنِتھوس‘ ہے جس کے واضح معنی ’کنواری‘ بنتے ہیں ۔ سوِاے کنواری کے اِس کے اور کوئی معنی نہیں نکلتے۔ بائبل بتاتی ہے کہ ایک نوجوان کنواری تھی جس کا نام مریم تھا۔ اور خُدوند کے فرشتہ نے مریم سے کہا ’’ رُوحُ القُدس تُجھ پر نازِل ہوگا اور… خُدا تعالیٰ کی قُدرت تُجھ پر سایہ ڈالے

گی‘‘ (لوقا ۱: ۳۵)۔ اور اُس نے مزید کہا کہ وہ حاملہ ہو گی اور ایک بچہ جنیگی، وہ مسیحا کو جنم دے گی۔ اِس انداز سے خُدا انسانیت میں داخل ہوُا تا کہ دوسرا آدم دنیا میں آے۔ خُدا خود بیٹے میں مجسم ہوُا ــ روُالقدُس سے حاملہ ہونا کنوارپن سے اس  کا آغاز ہوا ــ روح القدس نےانسانوں کے فطرتی افزائش ِنسل کے طریقہ میں مداخلت کی۔ اِسی لیے یسوُع خدا کا بیٹا پکارا جاتا ہے۔ وہ یوسف کا بیٹا نہیں تھا، وہ کسی رومی سپاہی کا بیٹا نہیں تھا۔ وہ کسی انسانی باپ کا بیٹا نہیں تھا۔ وہ روُح القدُس سے پیٹ میں پڑا تھا ۔ خُدا ایک نئی تخلیق سامنے لے آیا، دوُسرا آدمی، آدم کی مردانہ نسل کے اصلی گناہ کے بغیر ، یسوُع کو مریم کے خاندان کی نسل سے منسلک کرتے ہوُے ، داؤد اور ابرہام کی اولاد میں شامل کیا جِس وہ بہت سے وعدے پوُرے ہوُے جو خدا نے اُن سے کئے تھے۔ اِس کے علاوہ، وہ اُس کی ماں مریم ہی تھی جِس سے خُداوند نے انسانی فطِرت حاصل کی تھی۔ چنانچہ یسوُع مسیح منُفرد تھا، روُح القدُس سے پیٹ میں پڑا ، لیکن ’’داؤد کے گھرانہ میں پیدا ہوُا ‘’( لوقا ۴:۲۔)

کیا یہ جواب آپ کے لیے مددگار ثابت ہوُا؟ ہاں / نہیں

خوف اور فکر کے لئےآیات

                                          خوف اور فکر کے لئےآیات

فلپیوں 7-6:4

کِسی بات کی فِکر نہ کرو بلکہ ہر ایک بات میں تُمہاری دَرخواستیں دُعا اور مِنّت کے وسِیلہ سے شُکرگُذاری کے ساتھ خُدا کے سامنے پیش کی جائیں۔

تو خُدا کا اِطمینان جو سَمَجھ سے بِالکُل باہِر ہے تُمہارے دِلوں اور خیالوں کو مسِیح یِسُوع میں محفُوظ رکھّے گا.

 

متّی26-25:6

اِس لِئے مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ اپنی جان کی فِکر نہ کرنا کہ ہم کیا

کھائیں گے یا کیا پیئیں گے؟ اور نہ اپنے بَدَن کی کہ کیا پہنیں گے؟ کیاجان خوراک سے اور بَدَن پوشاک سے بڑھ کر نہِیں؟ ہوا کے پرِندوں کو دیکھو نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے۔ نہ کوٹھِیوں میں جمع کرتے ہیں تو بھی تُمہارا آسمانی باپ اُن کو کھِلاتا ہے۔ کیا تُم اُن سے زیادہ قدر نہِیں رکھتے؟

متّی34:6

پَس کل کے لِئے فِکر نہ کرو کِیُونکہ کل کا دِن اپنے لِئے آپ فِکر کرلے گا۔ آج

کے لِئے آج ہی کا دُکھ کافی ہے۔

یسعیاہ35:4 

ان کو کج دلے ہیں کہو ہمت باندھو مت ڈرو ۔ دیکھو تمہارا خدا سزا اور جزا کے لیے آتا ہے۔ ہاں خدا ہی آئیگا اورتم کو بچائیگا۔

1 پطرس7:5

اور اپنی ساری فِکر اُسی پر ڈال دو کِیُونکہ اُس کو تُمہارا خیال ہے۔

زبُور19:94

جب میرے دِل میں فِکروں کی کثرت ہوتی ہے تو تیری تسلی میری جان کو شاد کرتی ہے۔

متّی20-19:10

لیکِن جب وہ تُم کو پکڑوائیں تو فِکر نہ کرنا کہ ہم کِس طرح کہیں اور کیا کہیں کِیُونکہ جو کُچھ کہنا ہوگا اُسی گھڑی تُم کو بتایا جائے گا۔ کِیُونکہ بولنے والے تُم نہِیں بلکہ تُمہارے باپ کا رُوح ہے جو تُم میں بولتا ہے۔

اِمثال 6-5:3

سارے دِل سے خداوند پر توکل کراور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر ۔

اپنی سب راہوں میں اُسکو پہچان اور وہ تیری راہنمائی کریگا ۔

متّی 27:6

تُم میں اَیسا کون ہے جو فِکر کر کے اپنی عُمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے؟

رومیوں18:8

کِیُونکہ میری دانِست میں اِس زمانہ کے دُکھ درد اِس لائِق نہِیں کہ اُس جلال کے مُقابِل ہوسکیں جو ہم پر ظاہِر ہونے والا ہے۔

اِمثال 25:12

آدمی کا دل فکرمندی سے دب جٓاتا ہے لیکن اچھی بات سے خوش ہوتا ہے۔

زبُور 62:8

اَے لوگو! ہر وقت اُس پر توکُل کرو۔اپنے دِل کا حال اُسکے سامنے کھول دو۔ خُدا ہماری پناہ گاہ ہے۔

رومیوں 28:8

اور ہم کو معلُوم ہے کہ سب چِیزیں مِل کر خُدا سے محبّت رکھنے والوں کے لِئے بھلائی پَیدا کرتی ہیں یعنی اُن کے لِئے جو خُدا کے اِرادہ کے مُوافِق بُلائے گئے۔

یسعیاہ 10:41

تو مت ڈر کیونکہ میں تیرے ساتھ ہوں۔ ہراسان نہ ہو کیونکہ میں تیرا خدا ہوں میں تجھے زوربخشونگا۔ میں یقیناً تیری مدد کرونگا اور میں اپنی صداقت کے دہنے ہاتھسے تجھے سنبھالونگا۔

یرمیاہ 11:29

کیونکہ میں تمہارے حق میں اپنے خیالات کوجانتا ہوں خداوند فرماتا ہے یعنی سلامتی کے خیالات ۔بُرائی کے نہیں تاکہ میں تم کو نیک انجام کی اُمید بخشوں.

متّی 29-28:11

اَے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہُوئے لوگو سب میرے پاس آؤ۔ میں تُم کو آرام دُوں گا۔

میرا جُوا اپنے اُوپر اُٹھا لو اور مُجھ سے سِیکھو۔ کِیُونکہ مَیں حلِیم ہُوں اور دِل کا فروتن۔ تو تُمہاری جانیں آرام پائیں گی۔

اِمثال 25:31

عزت اور حرمت اُسکی پوشاک ہیں اور وہ آیندہ ایام پر ہنستی ہے۔

استثنا 6:31

تو مضبو ط ہو جا اور حوصلہ رکھ ۔ مت ڈر اور نہ اُن سے خوف کھاکیونکہ خداوند تیرا خدا خود ہی تیرے ساتھ جاتا ہے ۔ وہ تجھ سے دست بردار نہیں ہو گا اور نہ تجھ کو چھوڑے گا ۔

رومیوں 12:12

اُمِید میں خُوش۔ مصِیبت میں صابِر۔ دُعا کرنے میں مشغُول رہُو۔

یسو ع کو کیسے جانیں ؟

یسو ع کو کیسے جانیں ؟

( یسوع کی پیروی کرنے کے بارے میں اپنا فیصلہ نیچے دئیے گئے حصہ میں لکھ کر بتائیں )

یسوع مسیح اس دنیا میں آیا، اُس نے صلیب پرجان دی اور قبر میں سے جی اُٹھا تاکہ آپ خداباپ کے ساتھ اپنا رشتہ

اُستوار کر سکیں۔ خدا تعالیٰ آپ سے اس قدر پیار کرتا ہے کہ اُس نے ۲،۰۰۰ ہزار سال قبل اپنے اکلوتے بیٹے کو بھیجا کہ

وہ اپنی جان دے تاکہ خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ شخصی تعلق قائم کر سکے۔اُس نےآپ کو اس دنیا میں حادثاتی طور نہیں

رکھا، بلکہ اس مقصد کےساتھ کہ آپکی زندگی سے اُس کو جلال ملے۔ اُس نے آپ کو عظیم کاموں کو سرانجام دینے کےلئے

بلایا ہے جس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے !

یسوع کو اپنے دل میں قبول کرنا مسیح کے ساتھ نئی زندگی شروع کرنے کا پہلا قدم ہے۔ خدا کے بچے طور پر آپ اُسکے

کلام میں بیان کی گئیں سب روحانی برکات کے وارث ہیں جس میں مسیح کے وسیلےہمیشہ کی زندگی بھی شامل ہے ۔ کیا

آپ اپنی زندگی میں مافوق الفطرت تبدیلی کے لئے تیار ہیں جس کے آپ آرزو مند رہے ہیں؟ تو پھر آج اپنے دل میں مسیح

یسوع کو قبول کریں!

اگر آپ نے ابھی تک یسوع کو اپنا خداوند اور نجات دھندہ قبول نہیں کیا اور اگر اب تیار ہیں تو نیچے لکھی گئی دُعا بلند

آواز سےمانگیں:

پیارے خداوند یسوع ،

میں ایک گنہگار ہوں اور مجھےآپ کی ضرورت ہے۔ مجھے اپنی زندگی میں آپکے اطمینان کی ضرورت ہے۔ اے باپ ، میں

ایمان رکھتا ہوں کہ یسوع صلیب پر میرے گناھوں کے لئے مُوا اور وہی خدا کا بیٹا ہے ۔ میں ایمان رکھتا ہوں کہ وہ مُردوں

میں سے جی اُٹھا او آسمان پر تخت نشین ہے۔ اے خداوند میں اپنے گناھوں سے توبہ کرتا ہوں اور آپ میرے دل میں آئیں

اور سچائی کی طرف میری راھنمائی کریں۔ اے باپ مجھے پاک صاف کرکے اپنے میں نیا بنادیں۔ میں آپکا شکریہ ادا کرتا

ہوں اور یہ دُعا یسوع کے نام سے مانگتا ہوں ۔

آمین۔

کیا آپ نے یسوع کو قبول کرنے کی دُعا کی ؟

فیصلہ*

کیاآپ مذید معلومات کے خواھش مند ہیں ؟

نام

پہلا نام

ای میل

ہم آپکے یسوع مسیح کو قبول کرنے کے فیصلے، اور کوئی سوال جو آپ پوچھنا

چاھیں اُس کو جاننےکےمشتاق رہیں گے۔

بھیج دیں۔

کیا موت کے بعد زندگی ہے؟       

کیا موت کے بعد زندگی ہے؟                                                           

جی ہاں! واضح طور پر ، تمام لوگوں کے لیے موت کے بعد زندگی ہے۔ موت کے بعد آپ اپنی زندگی کیسے گذاریں گے اِس کا انحصار اِس وقت خُدا کے ساتھ آپ کے تعلق سے ہے۔ یسوُع مسیح نے فرمایا، ’’ قیامت اور زِندگی تو میَں ہُوں-جو مجُھ پر اِیمان لاتا ہے گو وہ مر جائے تو بھی زِندہ رہے گا- اور جو کوئی زِندہ ہے اور مجُھ پر اِیمان لاتا

ہے وہ اَبد تک کبھی نہ مریگا‘‘۔ (یوحنا ۱۱: ۲۵ ـ ۲۶)۔ یسوُع مسیح کا مکمل پیغام یہ تھا کہ اُس نے گناہ اور موت کے اختیار کو ختم کر دیا، کیونکہ گناہ کا انجام موت تھی۔ یسوُع نے کہا ’’کیونکہ میں جیتا ہوُں تُم بھی جیتے رہوگے‘‘ (یوحنا ۱۴: ۱۹)۔ یہی دنیا کی اُمید ہے ــ یعنی مُردوں میں سے جی اُٹھنا۔ پولُس رسوُل نے کہا ہے ’’بلکہ میں اپنے خُداوند مسیح یسوُع کی پہچان کی بڑی خوُبی کے سبب سے سب چیزوں کو نقصان سمجھتا ہوُں۔ جس کی خاطر میں نے سب چیزوں کا نقصان اُٹھایا اور اُن کو کوُڑا سمجھتا ہوُں تاکہ مسیح کو حاصل کروُں… میں اُسکو اور اُسکے جی اُٹھنے کی قدرت کو… معلوم کروُں… تاکہ کسی طرح مرُدوں میں سے جی اُٹھنے کے درجہ تک پہنچوُں۔ (فلپیوں ۳: ۸ ـ ۱۱)۔ موت کے بعد صرف زندگی ہی نہیں بلکہ خُدا ہمیں نئے جسم دے گا ، اِس جسم سے بہتر جو اب ہمارے پاس ہے۔ ہم بغیرجسم کے روحیں نہیں ہونگے۔ جو یسوُع پر ایمان رکھتے ہیں اُنہیں ویسا ہی جسم ملیگا جیسا یسوُع کا جی اٹھنے کے بعد تھا ( دیکھیں۱ کرنتھیوں ۱۵ : ۳۵ تا ۴۹ )                                     

ـ بائبل بتاتی ہے کہ ایمانداروں کی قیامت ہوگی اوربدوں کی قیامت بھی ہو گی۔ اُن میں سے بہتیرے جاگ اُٹھینگے بعض حیات ِ ابدی کے لیے اور بعض رسوائی اور ذِلت کے لیے۔

ِ   (دیکھیے دانی ایل ۱۲: ۲ ـ ۳، متّی ۲۵: ۴۶، مکاشفہ ۲۰: ۱۱ ـ ۱۵)۔ جو خُدا کے لیے جیتے رہے ہیں اُنہیں ایسا بدن ملِیگا جیسا  یسوُع کا ہےایک جلالی اور خوبصورت بدن ــ اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اُس کے ساتھ جلال میں رہیں گے۔ جنہوں نے اُس کے لیے زندگی نہیں گُذاری وہ سزا اور اذیئت کی جگہ میں ہونگے۔ جی ہاں، موت کے بعد زندگی ہے، لیکن اُس زندگی کے معیار کا اِنحصار اِس بات پر ہوگا کہ ہم نے اُس ’’زندگی سے پہلے کی زندگی‘‘ کے ایام کیسے گذُارے ہیں ۔ اکثر یہ سوال اُٹھتا ہے ۔ کہ ایک پیار کرنے والا باپ کسی کو دوزخ میں کیونکر بھیجے گا۔ یاد رکھیں کہ خُدا ہر وقت لوگوں کو اپنی طرف بلاتا رہتا ہے۔ وہ نشان دکھاتا رہتا ہے جیسے کہ سوُرج، چاند، موسم اور فصل کی کٹائی تاکہ ہمیں پتہ چلے کہ اُس کی محبت ماجود  ہے۔ وہ مُنادوں، استادوں اور مبُشرون کو بھیجتا ہے اُن لوگوں کو ہوشیار کرنے کے لیے جو خدا کی مرضی کے خلاف چلتے ہیں، اور اُن کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے تاکہ خدا کے پاس آئیں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ آسمان

آسمان ہی رہےاگر وہ جو  آسمان میں رہنے والے ہیں وہ  اس خوف میں نہ جئیں جو کہ دوسری ابلیسی بغاوت سے، درد، دُکھ اور موت سے ہوتا ہے۔ اِس خوف کو ختم کرنے کا واحد راستہ یہ دیکھنا ہے کہ جو خُدا کا پوُری طرح انکار کرتے ہیں اور جو اُس کی بادشاہی میں شریک نہیں ہونا چاہتے اُن کی خواہشات پوُری کر دی جاتی ہیں۔ ایسے لوگ خدا کی بادشاہی کا حصہ نہیں بننا چاہتے، اُن کے لیے خدا کہتا ہے، تمہاری مرضی مجُھ سے جُدا ہونے میں ہے تو میں ویسے ہی تمہاری مرضی پر چھوڑ دیتا ہوُں جیسا تُم چاہتے ہو‘‘۔ خُدا سے جُدا ہونے میں ابدی تاریکی ہے۔ ایسا سوچنا بھی خوفناک بات ہے، لیکن یہ انتخاب خُدا کا نہیں ہے کہ وہ کسی کو تاریکی میں بھیجے۔ وہ نہ چاھتے ہوُے وہ سب کچھ حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے جو وہ اُس سے مانگتے ہیں۔ بائبل جب دوزخ کی بات کرتی ہے تو

وہ ہمیشہ کی آگ اور ابدی تاریکی کی بات کرتی ہے۔ (دیکھیے متّی ۸: ۱۲، ۲۵: ۴۱)۔ یہ چاہے لفظی تشریح ہے یا اعداد و شمار کا بیان جو واضح کرتا ہے اُس پچھتاوے اور جذباتی تکلیف کو جو کھوے ہوُے شخص کو اُٹھانی پڑے گی، جب اُنہیں پتہ چلے گا کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خدا سے جُدا ہو چکے ہیں، جس کا اُنہیں اِس وقت علم نہیں ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ دوزخ ایک حقیقت ہے اوریہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہے! پچھلے چند سالوں میں ہم نے ایسے کئی واقعات دیکھے ہیں جن میں لوگ چند لمحوں کے لیے میڈیکلی مردہ قرار دئیے گئےاور ’’طبی موت‘‘ کے بعد دوبارہ زندگی میں لوٹ آے ہیں۔ اِن میں سے کافی لوگوں نے آسمان کو دیکھا ہے اور بعض کو تو دوزخ کا نظارہ کرنے کی اجازت بھی دی گئی تھی۔ اُنہوں نے ایک زندہ وجود کو دیکھا ہے جِس کو وہ خُدا تصور کرتے ہیں۔ وہ یسوُع سے بھی رابطہ کر چکے ہیں۔ کچھ نے کہا کہ وہ اِس زندگی میں لوٹنا چاہتے ہیں، اور اُس نے انہیں واپس آنے دیا؛ دوسروں نے وہاں رہنا پسند کیا، اور اُس نے اُن سے کہا کہ ابھی اُن کے لیے اِس زندگی میں کچھ کام باقی ہے۔ اُن سب کے لیے یہ زندگی تبدیل کرنے والا تجربہ رہا ہے، اور یہ موت کے بات زندگی کے وجوُد پر مبنی گواہی ہے۔ یہ تجربات، بلا شبہ، ثبوُت نہیں ہیں کہ موت کے بات زندگی ہے، لیکن یہ باتیں بائبل کے اُن بیانات کو سہارا دیتی ہیں کہ قبر میں جانے کے بعدکہتی ہے کہ ہمیں مرُدوں سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔زندگی جاری رہتی ہے۔ بائبل اپنی تعلیمات میں۔ احِبار  ۱۹: ۳۱ بتاتی ہے وضاحت سے

بتاتی ہے ’’ جو جِنّات کے یار ہیں اور جو جادُوگر ہیں تُم اُن کے پاس نہ جانا اور نہ اُن کے طالِب ہونا کہ وہ تُم کو نجِس بنا دیں ۔ میں خُداوند تُمہارا خُدا ہُوں‘‘۔ یسعیاہ ۸: ۱۹ ’’ اور جب وہ تُم سے کہیں تُم جِنّات کے یاروں اور افسُون گروں کی جو پُھسپُھساتے اور بُڑبُڑاتے ہیں تلاش کرو تو تُم کہو کیا لوگوں کو مُناسب نہیں کہ اپنے خُدا کے طالِب ہوں؟ کیا زِندوں کی بابت مردوں سے سوال کرنا واجب ہے؟‘‘ جب داؤد بادشاہ کا بیٹا مر گیا تو اُس نے کہا ’’ میں تو اُس کے پاس جاؤں گا پر وہ میرے پاس نہیں لَوٹنے کا‘‘ (دوسرا سیموایل ۱۲: ۲۳)۔ مرنے

کے بعد یا تو ہم فردوس میں جاتے ہیں یا دوزخ میں۔ ہم اپنے پیاروں سے جا ملیں گے جو فردوس یا دوزخ میں گئے ہیں۔ ہم اُن پیاروں سے اُس وقت ملیں گے جب ہم بھی اُسی جگہ ہونگے جہاں وہ ہیں ۔ تب تک زندوں کا اُن سے رابطہ کرنے کی کوشش کرنا منع ہے۔ نام نہاد بھوُت پریت،یا روُحیں جو موکلوں کے ذریعہ سے بات کرتی ہیں، دراصل ابلیسی قوتیں ہیں جو مرُدہ لوگوں کی روُحوں کے بھیس میں ہوتی ہیں۔ اگر آپ انہیں موقع دیں تو یہ آپ کو دھوکہ دیں گی۔ وہ آپ کو خدا سے دوُر لے جانے کی اور آپ   کو اپنے قابو میں کرنے کی پوُری کوشش کرینگی۔

کیا یہ جواب آپ کے لیے مددگار ثابت ہوُا؟ ہاں / نہیں

یسوع مسیح کس طرح ، کنفیوشیس ، بدھا اور محمد(ص) سے مختلف ہے ؟

یسوع مسیح کس طرح ، کنفیوشیس ، بدھا اور محمد(ص) سے مختلف ہے ؟

مسیح نے دعویٰ کیا کہ وہ خدا ہے ، اور اُس نے بطور خدا اپنی پرستش کی اجازت بھی دی۔ اُس کے مُردوں میں سے جی اٹھنے کے بعد اُس کے ایک شاکرد نے اُس کے آگے گٹھنے ٹیک کر کہا، “ اے میرے خداوند اے میرے خدا “( یوحنا ۲۸:۲۰)  ایک اچھے مذھبی یہودی کے طور پر اگر دیکھیں تو اس عمل کو گستاخی تصور کیا جانا چاھیے تھا۔ لیکن یسوع مسیح نے اس کو قبول و منظور فرمایا اور کہا کہ تم’’ یِسُوع نے اُس سے کہا تُونے خُود کہہ دِیا بلکہ مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ اِس کے بعد تُم اِبنِ آدم کو قادِرِ مُطلَق کی دہنی طرف بَیٹھے اور آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھو گے۔ “( متی ۶۴:۲۶ )  اُس نے اپنی شناخت خدا کے بیٹے کے طور پر کروائی ( دیکھیں یوحنا ۳ : ۱۶تا۱۸   )  اُس نے اپنی زندگی میں اپنے بارے میں کئی ایسی باتیں کہیں ، اگر وہ سچ نہ ہوتیں تو وہ ایک پاگل شخص کی باتیں سمجھی جاتیں ۔

یسوع مسیح نے کہا’’ میں دنیا کا نور ہوں “ جو میری پیروی کرے گا اندھیرے میں نہ چلے گا “  ( یوحنا ۱۲:۸ ) اُس نے کہا ’’زندگی کی روٹی میں ہوں “ ( یوحنا ۳۵:۶ ) اُس نے لوگوں کو یہ بھی بتایا ’’  یِسُوع نے اُن سے کہا مَیں تُم سے سَچ کہتا ہُوں کہ جب تک تُم اِبنِ آدم کا گوشت نہ کھاو اور اُس کا خُون نہ پیو تُم میں زِندگی نہِیں۔ “ ( یوحنا ۵۳:۶ ) اُس نے اپنی الہیٰ فظرت کے بارے میں بھی بہت سے دعویٰ کئے۔ جب لوگوں نے اُسکے دعووں پر اعتراض کیا تو اُس نے کہا دراصل اگر میں اپنی الہیٰ فطرت کا انکار کروں تو میں جھوٹا ٹھہروں گا جیسے کہ تم ہو ۔ ( دیکھیں یوحنا ۵۵:۸ )

محمد (ص) کا ایمان تھا کہ وہ نبی ہے ۔ بدھا محسوس کرتا تھا کہ وہ سچائی کا متلاشی ہے ۔  کنفیوشیس نے کچھ بھی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا سوائے ایک عقلمند استاد ہونے کے ۔ یسوع ہی واحد ہے جس نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ خدا کاابدی  بیٹا ہے ۔ وہ خدا ہے اور اُس نے اپنی الوہیت کو ثبوتوں سے ثابت بھی کیا ۔

یسوع میسح مر گیا دفن ہوا اور مُردوں میں سے جی اُٹھا ( دیکھیں متی ۷:۲۸  ، اعمال ۱۳ :۳۰تا۳۱ )  اُسکے جی اٹھنے کے بعد ۵۰۰ سو لوگوں نے اُس کو دیکھا  ( دیکھیں ۱ کرنتھیوں ۱۵ :۴ تا ۸ )  اُس میں یہ قدرت تھی کہ وہ بند دروازوں میں سے گزر گیا ( دیکھیں یوحنا ۲۰ :۱۹ تا۲۶ ) دُور دراز علاقوں میں فوراً جا پہنچا۔ ( دیکھیں یوحنا ۲۱:۶ ) اور آسمان پر چلا کیا ( دیکھیں لوقا ۵۱:۲۴ ،  اعمال ۱ :۹تا۱۱ ) اور اُس نے مکمل روحانی جی اٹھا بدن لے لیا۔ وہ آسمان میں گیا اور اُس نے اپنے شاکردوں کو قوت دینے کے لئے روح القدس نازل فرمایا کے انکے اندر سدا سکونت کرے ۔ پطرس رسول اس بات کا دعویٰ کرتا ھے کہ وہ آسمان میں پہنچ گیا ہے ۔ ( دیکھیں اعمال ۳۳:۲ )

کیا یہ جواب آپ کے لئے مددگار ثابت ہوا؟  ھاں /  نہیں

یسوُع کی تعلیمات کو کیا چیز منُفرد بناتی ہیں؟

یسوُع کی تعلیمات کو کیا چیز منُفرد بناتی ہیں؟

   کہا جاتا ہے کہ اگر یسُوع خُدا نہیں ہے، تو پھر ہمیں اُس شخص کی عبادت کرنی  چاہیے جس نے اُس کے بارے میں یہ خیال پیش کیا تھا ، کیونکہ تب سے اب تک اور اِس سے قبل اِس انداز سے کبھی کسی شخص نےیہ بات نہیں کی۔ جو تعلیمات میں نے خاص طور پر بادشاہی کے بارے میں دریافت کی ہیں ، اُن باتوں میں خود کو مستند ثابت کرنے کی حقیقت موجوُد ہے۔ اِن میں ہر دور کے لوگوں کے تجربات کی گوُنج پائی جاتی ہے۔ جب اِن اصولوں کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے تو یہ ہمیں بڑی استقامت سے سلامتی، ہم آہنگی، فتح اور محبت کی طرف لے جاتے ہیں۔ اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یسُوع کی تعلیمات میں تضاد پیدا نہیں ہو سکتا ۔ کیونکہ جب کوئی خُدا کی تعلیمات کو قبوُل کرتا ہے تو اُسکا اُن لوگوں کے ساتھ تضاد ہوتا ہے جو بدی میں رہنا جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

   یسوع کے الفاظ میں حکمت دھڑکتی ہے۔ مثال کے طور پر دنیوی حکومتوں کے بارے میں اُس کی سوچ: ’’پس جو قیصر کا ہے قیصر کو اور جو خُدا کا ہے خُدا کو ادا کرو‘‘ (متی ۲۲ : ۲۱) خُدا کے روُح ہونے کے بارے میں اُس کی سوچ: ’’خُدا رُوح ہے اور ضرُور ہے کہ اُس کے پرستار رُوح اور سچّائی سے اُسکی پرستِش کریں‘‘ (یوحنا ۴: ۲۴)۔ اپنے پہاڑی واعظ میں کہتا ہے ، ’’لیکن میں تُم سے یہ کہتا ہُوں کہ اپنے دُشمنوں سے محبّت رکھّو اور اپنے ستانے والوں کے لِئے دُعا کرو‘‘ (متّی ۵: ۴۴)۔ سب سے بڑا حکم ’’ خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبّت رکھ، اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبّت رکھ، اِنہی دو حُکموں پر تمام توریت اور انبیا کے صحِیفوں کا مدار ہے۔ (متّی ۲۲: ۳۷ ـ ۴۰)۔ پوُری تاریخ کے بارے میں یسوُع کا علم حد سے زیادہ قابِل تعریف تھا، تاریخ میں کوئی بھی شخص ایسا نہیں گزرا جو اُس کے قریب بھی پھٹک سکا ہو۔ علاوہ اَزیں سب سے بڑھ کر یہ کہ، یسوُع مرُدوں میں سے زندہ ہوُا ، لوگوں پر ظاہر ہوُا ، اپنا روُح لوگوں پر بھیجا ، اور لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو تبدیل کیا ۔ انجیل ِ مقدس جہاں بھی آپکو ملے گی وہاں آپکو ترقی ملے گی، آزادی، رہائی، اور خاندانی وفاداری … ہر وہ چیز جسے لوگ اپنے دِل کی حسرت قرار دیتے ہیں وہاں ملتی ہیں۔ یہ کوئی اتفاق نہیں کہ جِن قوموں کو مسیح سے منسوُب کیا جاتا ہے وہ صدیوں سے پوُری دنیا میں ہر طرح کی کامیابیوں میں سب کو پیچھے چھوڑتے آے ہیں ۔ یہ سچ ہے کہ مسیحت کے نام پر دنیا میں بہت سے جرائم بھی کئے گئے ہیں۔ لیکن جو اِس جرُم کے مرتکب ہوُے وہ   مسیح یا اُس کی تعلیمات سے واقف نہ تھے۔ مسیح نے لوگوں کو یہوُدیوں اور ’’بِدعتی‘‘ لوگوں کو اذئیت دینے کو نہیں کہا۔ بہت سے ایسے نام نہاد ’’بِدعتی لوگ‘‘ درحقیقت وہ تھے جو خُدا کو جانتے تھے اور وہ ایسے خُدا پرست لوگوں کے ہاتھوں مُجرم ٹھہراے جا رہے تھے جو اُس کو نہیں جانتے تھے۔

مذہب میں ہوتا یوُں ہے کہ ایک نسل یسُوع کو پا لیتی ہے اُس کے لیے قائم رہتی ہے۔ دوُسری نسل تعلیم کو سُن کر سیکھتی ہے۔ تیسری نسل اِس کے بارے میں کچھ نہیں جانتی لیکن دنیوی قوُت کو پکڑے رہنے کے جواز کے لیے مذہب کو استعمال کرتی ہیں۔ ایسے لوگوں نے کروُسیڈ شروع کئے اور تحقیقات عمل میں لاے۔ وہ مذہب کا استعمال کرتے تھے لیکن وہ یسُوع کو نہیں جانتے تھے۔ جہاں بھی آپ سیاسی قوُت اور دنیاوی مقاصد کے حصول کےلئے مسیحت کو استعمال کرتے دیکھیں ، وہاں آپکو اکثر نیا عہد نامہ کی عملی تعلیم غیر حاضر ملے گی۔ تب اگر آپ وہاں مذھب کے نام پر حد سے زیادہ گناہ ہوتے ہوُے دیکھیں ۔ تو اِن بے انتہا گناہوں کے سرزد ہونے کے لیےجو اُس کے نام کے لبادے میں ہوتے ہیں نہ ہی یسوع اور نہ ہی اُس کی تعلیمات پر الزام لگائیں۔

                                                                      ۔

کیا یہ جواب آپ کے لیے مددگار ثابت ہوُا تھا؟ ہا ں ٍٍ/ نہیں 

شادی سے پہلےکیا ایک جوڑے کا ساتھ ملکر رہنا غلط ہے

یہ ایک بہت ہی حساس اور ذاتی نویت کا سوال ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اکھٹے رہنے سے

کیا مراد ہے "ملکر رہنا”۔ اگر اس کے معنی ہیں جنسی رشتہ کا ہونا ، تو یہ سراسر غلط ہے۔ شادی سے پہلے جنسی

 ؛ تعلقات کا ہونا پاک کلام میں دیگر تمام جنسی بداخلاقی کے ساتھ بار بار منع کیا گیا ہے (اعمال 20:15 ؛ رومیوں 29:1

 ( ؛ گلتیوں 19:5 ؛ افسیوں 3:5 ؛ کلسیوں 5:3

  کلام پاک شادی سے باہر اور (شادی سے پہلے) مکمل پرہیزگاری پر عمل پیرا رہنے کی حمایت کرتا ہے اور تعلییم دیتاہے۔

شادی سے پہلے جنسی تعلقات اخلاقی اور معاشرتی لحاظ سے بھی غلط ہیں۔ ویسے جنسی بداخلاقیوں کی کئی صورتیں

ہوتی ہیں کیونکہ یہ سب کی سب کسی نہ کسی طرح سے  کسی کے ساتھ بھی جنسی عمل کو انجام دینے میں شامل ہیں جو بھی

.شادی کےبندھن سے باہر ہیں اور یہ کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہو سکتا

اگر "مل کر رہنے کے” معنی یہ ہیں کہ ایک ہی گھر میں رہتے ہوں تو شاید یہ فرق معاملہ ہے۔ آخر کار ایک آدمی اور ایک

عورت دونوں کوئی بداخلاقی کو انجام نہیں دیتے ہیں تو انکا ایک ہی گھر میں رہنا بری بات نہیں ہے۔ کسی طرح پریشانی

تب ہوتی ہے جب کوئی بداخلاقی ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ ( 1تھسلنیکیوں 22:5 ؛ افسیوں 3:5 )۔ مگر یہ بات نہیں بھولنی

چاہئے کہ اس طرح ساتھ میں رہنا بداخلاقی کے لئے ہولناک آزمایش بھی بن سکتی ہے۔ پاک کلام ہم سے کہتا ہے کہ

حرامکاری سے بھاگو۔ کیونکہ جتنے گناہ آدمی کرتا ہے وہ بدن سے باہر ہے مگر حرامکار اپنے بدن کا بھی گنہگار ہے ( 1

کرنتھیوں 18:6 )۔ پھر بھی ایک کھر میں ساتھ رہنے سے لوگوں کو باتیں کرنے کا موقع بھی مل جاتا ہے جو حقیقت پر مبنی

ہوں چاہے نہ ہوں مگر پریشانی کا سبب بن سکتی ہیں۔ ایک جوڑا جو ایک ساتھ رہتا ہےلوگ سوچ سکتے ہیں کہ وہ دونوں

ایک ساتھ سوتے ہونگے— یہ باتیں بالکل فطرتی ہیں گو ایک ہی گھر میں رہنا ہمیں گنہگار نہیں بناتا پھر بھی لوگوں میں

5:22  شک و شبہات پیدا ہونے کا اندیشہ موجود رہتا ہے۔ کلام پاک ہم کو وھمی ہونے سے خبردار کرتا ہے ( 1تھسلنیکیوں

افسیوں 3:5 )۔ ہمیں حرامکاری سے بھاگنا اور کسی کے لئے بھی ٹھوکر کھانے کا سبب نہیں بننا چاھئیے اگر کسی جوڑے

کے اکھٹے رہنا کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا سبب بنتا ہے اور جوڑے کی بدنامی کا بھی تو اس بات کو بھی ذہن

میں رکھنا ضروری ہے ایک آدمی اور ایک عورت کا شادی سے پہلے ایک ساتھ رہنے سے خدا کی بھی عزت افزائی نہیں

ہوتی۔اس لئے کلام خدا کی ھدایات کی روشنی میں ہمیں درست سمت کا انتخاب کرنا چاھیےتاکہ خدا کی برکات ہماری

زندگی میں بنی رہیں۔

باغی بچوں کی تربیت کے بارے میں بائبل کیا کہتی ہے

باغی بچوں کی تربیت کے بارے میں بائبل کیا کہتی ہے

بچے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص نعمت اور برکت ہیں ۔بائبل بچوں کی تربیت کے تعلق سے واضع ھدایات ہم تک

پہنچاتی ہے۔ کو ھر ایک بچے کی شخصیت دوسرے بچے سے مختلف ہوتی ہے۔ لیکن والدین کو یکساں محبت کے ساتھ

تربیت کی تلقین کی گئی ہے۔ اگر کوئی بچہ اپنے روئیے سےبغاوت کا اظہار کرتا ہے ہو سکتا ہے کہ وہ مختلف وجوہات کی

وجہ سے ایسا کر رہا ہو۔ ہمیں ان وجوہات کا کھوج لگانے اور انکا مناسب طریقے سے تدارک کرنے کی کوشش کرنا چاھئے۔

ہوسکتا ہے کہ والدین کا کرخت لہجہ اور بے جا ڈانٹ ڈپٹ، محبت سےخالی تربیت کا انداز، اوربے جا تنقید کی عادت کے

نتیجہ بھی بعض اوقات بغاوت سبب ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ ایسے سلوک کے خلاف سب سے زیادہ فرمانبردار بچہ بھی

اندرونی یا بیرونی طور پر بغاوت کی طرف جا سکتا ہے۔ قدرتی طور پر، اِس قسم کے والدین سے پرہیز ہی کیا جاتا ہے۔ اِس

کے علاوہ، والدین کے خلاف بغاوت کی ایک خاص مقدار تیرہ سے اُنیس سال کے نوجوانوں میں قدرتی ہے جو اپنی زندگی

کو قائم کرنے اور اپنی شناخت بنانے کے عمل میں آہستہ آہستہ اپنے خاندانوں سے جُدا ہو رہے ہیں۔

یہ فرض کرنے سے کہ باغی بچہ قدرتی طور پر ایک مضبوط مرضی کی شخصیت رکھتا ہے، اُس کی خصوصیات کو یعنی

اُسکی رغبت ،کنڑول سے باہر خواہش، اور تمام جائز اختیارات کے خلاف مزاحمت کرنے کی ذمہ داری اُسکی مضبوط

مرضی کی عادت پر ڈال دی جائے یہ اُسکی تربیت کے لئے درست نہیں۔ دوسرے الفاظ میں مضبوط مرضی کی عادت کو

آزاد چھوڑنا اور تربیت میں نہ آنےکا دوسرا نام بغاوت ہے۔ لیکن اسکے ساتھ یہ بھی یاد رکھیں کہ، یہ مضبوط مرضی کے

باغی بچے اکثر بہت ذہین ہوتے ہیں اور اپنے اردگرد کے حالات اور لوگوں پر کنڑول پانے کے طریقے تلاش کرتے ہوئے حیران

کُن رفتار کے ساتھ صورتحال کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ یہ بچے اپنے والدین کے لئے بے حد تکلیف دہ اور تھکاوٹ کا باعث

اور چیلنج ہو سکتے ہیں۔

خوش قسمتی سے، یہ بھی سچ ہے کہ خُدا نے بچوں کو بنایا ہے جیسے وہ ہیں۔ وہ اُن سے پیار کرتا ہے، اور اُس نے والدین

کو چیلنجوں کو پورا کرنے کے وسائل کے بغیر نہیں چھوڑا۔ بائبل کے اصول ہیں جو خُدا کے فضل کی بدولت مضبوط مرضی

کے باغی بچوں سے نمٹنے کی بات کرتے ہیں۔ پہلا، امثال باب 22 آیت 6 ہمیں بتاتی ہے، "لڑکے کی اُس راہ پر تربیت کر

جِس پر اُسے جانا ہے۔ وہ بُوڑھا ہو کر بھی اُس سے نہیں مڑے گا”۔ تمام بچوں کے لئے ، جِس راہ پر اُنہیں چلنا چاہیے وہ

راہ خُدا کی طرف جاتی ہے۔ خُدا کے کلام کی تعلیم تمام بچوں کے لئے ضروری ہے، اُنہیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ خُدا

کون ہے اور اُس کی بہترین خدمت کیسے کرنی ہے۔ مضبوط مرضی کے بچے کے لئےسمجھ بوجھ جو اُسے کنڑول کرنے کی

خواہش کے لئے متحرک کرے اُسے اپنا راستہ تلاش کرنے میں مدد فراہم کرتے ہوئے ایک لمبے راستہ پر لے کر چلے گی۔ باغی

بچے کوسمجھنا ضروری ہے کہ وہ دُنیا کا انچارج نہیں ہے، بلکہ خُدا ہے، اور اُسے صرف وہی کام کرنے چاہیے جو خُدا کی

راہ کے مطابق ہیں۔ یہ والدین سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اِس سچائی کا بالکل یقین کریں اور اِس کے مطابق زندگی

گزاریں۔ والدین جو خود خُدا کے خلاف بغاوت میں ہیں، اپنے بچے کو تابعداری کرنے کے لئے قائل نہیں کر سکتے ۔

ایک بار جب یہ قائم کر دیا گیا ہے کہ واحد خُدا ہی ہے جو اصول بناتاہے، والدین کو چاہیےکہ یہ بات بچے کے ذہن نشین

کریں کہ وہ خُدا کے آلہ کار ہیں اور وہ اپنے خاندانوں کے لئے خُدا کے منصوبہ کو پورا کرنے کے لئے ہر ضروری کام کریں

گے۔ ایک سرکش بچے کو لازمی سکھانا چاہیے کہ والدین کے لئے خُدا کا منصوبہ ہے کہ وہ قیادت کریں اور بچے اُن کی

پیروی کریں۔ اِس نقطہ پر کوئی کمزوری نہیں ہو سکتی۔ مضبوط مرضی کا بچہ ایک میل دُور تذبذب کا نشان لگا سکتا اور

قیادت کے خلا کو بھرنے اور کنڑول پانے کے لئے موقع ملتے ہی کود سکتا ہے۔ اختیار کی تابعداری کرنا اصل مضبوط مرضی

کے مالک بچے کے لئے اہم ہے۔ اگر بچپن میں تابعداری نہ سیکھی جائے،تو مستقبل آجروں، پولیس ، عدالتوں، اور عسکری

قیادتوں کے ساتھ لڑائی جھگڑوں میں گزرے گا۔ رومیوں باب 13 آیات 1تا 5 واضح طور پر سکھاتی ہے کہ ہم پر حکومتیں

خُدا کی طرف سے قائم کی گئی ہیں، اور ہمیں اُن کی تابعداری کرنی چاہیے۔

اِس کے علاوہ ایک مضبوط مرضی کا مالک بچہ صرف اُس وقت قوائد و قوانین کو مانے گا جب وہ اُس کے مطابق ہوں گے۔

اِس سچائی کو مسلسل دہراتے ہوئے اُسے حکومت کے لئے ٹھوس وجہ فراہم کریں، کہ ہم کام اُسی طریقے سے کرتے ہیں

جیسے خُدا چاہتا ہے کہ کئے جائیں، اور یہ حقیقت بحث کرنے کے قابل نہیں ہے۔ وضاحت کریں کہ خُدا نے والدین کو اپنے

بچوں سے محبت کرنے اور اُن کی تربیت کرنے کی ذمہ داری دی ہے، اور ایسا کرنے میں ناکامی کا مطلب ہے کہ والدین خُدا

کی نافرمانی کر رہے ہیں۔تاہم،جب بھی ممکن ہو، بچے کی فیصلے کرنے میں مدد کے مواقع فراہم کریں تاکہ وہ مکمل طور

پر اپنے آپ کو لاچار محسوس نہ کریں۔ مثال کے طور پر، چرچ جانا مذاکرات کے قابل نہیں ہے کیونکہ خُدا ہمیں دوسرے

ایمانداروں کے ساتھ اکٹھے ہونے کا حکم دیتا ہے (عبرانیوں باب 10 آیت 25 )، لیکن بچے (کسی وجہ سے ) سے فیصلے کر

سکتے ہیں کہ وہ کونسے کپڑے پہنیں، اور اُن کے گھرانے کو کہاں بیٹھنا چاہیے وغیرہ۔ اُنہیں منصوبے فراہم کریں جِن میں

وہ خاندانی چھٹیوں کے منصوبے اپنی رائے دے سکتے ہیں۔

اِس کے علاوہ ، والدین کو اپنے ذمہ داریاں استحکام اور صبر کے ساتھ پوری کرنی چاہیے۔ والدین کو کوشش کرنی چاہیے

کہ وہ غصہ میں اپنی آواز بُلند نہ کریں یا آپے سے باہر ہو کر ہاتھ نہ اُٹھا لیں۔ اِس سے مضبوط مرضی کا بچہ بھی کنڑول

کرنا سیکھے گا جِس کی وہ خواہش کرے گا/گی، اور وہ تیزی سے اِس نتیجہ پر بھی پہنچ جائے گا/گی کہ آپ کو اِس حد

تک مایوس کرنے سے کہ آپ جذباتی ہو جائیں آپ کو کنڑول کیسے کرنا ہے۔ اِن بچوں کی جسمانی تربیت اکثر ناکام ہو

جاتی ہے کیونکہ وہ والدین کو نقطہ شکستگی تک پہنچانے میں بہت زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں، وہ محسوس کرتے ہیں کہ

تھوڑے سے درد کی قیمت ادا کرنا کارآمد ہے۔ مضبوط مرضی کے مالک بچوں کے والدین اکثر خبر دیتے ہیں کہ اُن کے بچوں

کو اگرچہ چوتڑوں پر مار پڑ رہی ہو تو بھی وہ والدین پر ہنستے ہیں، اتنی ماربھی اُن کی تربیت کا بہترین طریقہ نہیں ہو

سکتی ۔ممکن ہے اِن بچوں کی زندگی میں مسیحی پھل صبر اور پرہیزگاری نہ ہو (گلتیوں باب 5 آیت 23 )جن کی مضبوط

مرضی کے /باغی بچے کو بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

اِس بات سےکوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ بچے والدین کو کتنا غصہ دِلا سکتے ہیں، والدین خُدا کے وعدہ میں اطمینان حاصل

کر سکتے ہیں کہ خُدا ہمیں ایسی آزمائش میں نہیں پڑنے دیتا جو ہماری برداشت سے باہر ہو (پہلا کرنتھیوں باب 10 آیت

13 )۔ اگر خُدا اُنہیں مضبوط مرضی کا مالک بچہ دیتا ہے، والدین اِس بات کا یقین کر سکتے ہیں کہ خُدا نے غلطی نہیں کی

اور وہ ہدایات اور وسائل مہیا کرے گا جن کی اُن کو اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ضرورت پڑتی ہے۔ممکن ہے والدین کی

زندگی میں”بلا ناغہ دُعا ” (پہلا تھسلُنیکیوں باب 5 آیت 17 ) کے الفاظ مضبوط مرضی کے مالک نوجوان کے لئے زیادہ پُر

معنی نہ ہوں۔ اِن بچوں کے والدین کو حکمت کے لئے اپنا بہت سا وقت خُداوند کے سامنے گھٹنوں پر گزارنا چاہیے جِس کے

دینے کا خُداوند نے وعدہ کیا ہے (یعقوب پہلا باب آیت 5)۔ آخر میں، اس بات کو جان لینے میں سکون ہے کہ مضبوط مرضی

والے بچے جن کی اچھی تربیت کی جاتی ہیں اکثر کامیاب جوانوں کےطور پر پروان چڑھتے ہیں۔ بہت سے باغی بچے تبدیل

ہو کر جُرات مند، تابعدار مسیحی بن گئے ہیں، جوخُداوند کی خدمت کرنے کے لئے اپنے قابلِ غور توڑوں کو استعمال کرتے

ہیں ، وہ اپنے صابر اور محنتی والدین کی کاوشوں کے وسیلہ سے محبت اور احترام کی راہ پر آ گئے ہیں۔

اپنے باپ اور ماں کی عزت کرنے سے کیا مراد ہے؟

اپنے باپ اور ماں کی عزت کرنے سے مراد بچوں کا الفاظ اور اعمال میں با ادب ہونا اور اُن کے رُتبہ کے لئے تعظیم کا

باطنی رویہ رکھنا ہے۔ عزت کے لئے یونانی لفظ کے معنی ، "ادب ، انعام، اور قدر” کے ہیں۔ عزت کرنا نہ صرف اہلیت کے

اعتبار سے بلکہ رُتبہ کے لئے بھی احترام کرنا ہے۔ مثال کے طورپر، ہو سکتا ہے کہ بعض امریکی لوگ صدر کے فیصلوں

سے اتفاق نہ کریں، لیکن اُنہیں پھر بھی اپنے مُلک کے رہنما کے طور پر اُسکی حثییت کی وجہ سے اُسکا احترام کرنا

چاہیے۔ اِسی طرح ہر عمر کے بچوں کو اپنے والدین کی عزت کرنی چاہیے، چاہے اُنکے والدین عزت کے "مستحق ” ہوں یا نہ

ہوں۔

خُدا ہمیں نصیحت کرتا ہے کہ ہم اپنے باپ اور ماں کی عزت کریں۔ وہ والدین کی عزت کی اتنی قدر کرتا ہے کہ وہ اِسے دس

احکام میں شامل کرتا ہے(خروج باب 20 آیت 12 ) اور دوبارہ نئے عہد نامہ میں شامل کرتا ہے، "اے فرزندو! خُداوند میں

اپنے ماں باپ کے فرمانبردار رہو کیونکہ یہ واجب ہے۔ اپنے باپ کی اور ماں کی عزت کر (یہ پہلا حُکم ہے جِس کے ساتھ

وعدہ بھی ہے)۔ تاکہ تیرا بھلا ہوا اور تیری عُمر زمین پر دراز ہو”(افسیوں باب 6 پہلی تین آیات)۔ والدین کی عزت کرنے کا

حکم کتابِ مقدس میں واحد حکم ہے جو انعام کے طور پر لمبی عمر کا وعدہ کرتا ہے۔ جو اپنے والدین کی عزت کرتے ہیں وہ

مُبارک ہیں (یرمیاہ باب 35 آیات 18 تا 19 )۔ اِس کے برعکس ، وہ لوگ جو "اخلاق باختہ ذہن” رکھتے اور جو گزرے وقت میں

بےدینی کو ظاہر کرتے تھے والدین کی نافرمانی کی خصلت بیان کرتے ہیں (رومیوں پہلا باب آیت 30 ؛ دوسرا تھِمُتھیُس باب

3 آیت 2)۔

دنیا کا سب سے دانشمند شخص سلیمان بادشاہ بچوں کو نصیحت کرتا ہے کہ وہ اپنے والدین کی عزت کریں (امثال پہلا

باب آیت 8؛ باب 13 پہلی آیت، باب 30 آیت 17 )۔ گو اب ہم براہ راست اُن کے اختیار کے نیچے نہیں بھی رہ رہے، لیکن ہم

اپنے والدین کی عزت کے لئے خُدا کے حکم سے تجاوز نہیں کر سکتے۔ یہاں تک کہ خُدا کے بیٹے یسوع نے بھی اپنے آپ کو

اپنے زمینی والدین (لوقا دوسرا باب آیت 51 ) اور اپنے آسمانی باپ (متی باب 26 آیت 39 ) کے تابع کر دیا تھا۔ مسیح کے

نمونہ کی پیروی کرتے ہوئے، ہمیں اپنے والدین سے ایسا ہی سلوک کرنا چاہیے جیسے ہم عزت و احترام کے ساتھ اپنے

آسمانی باپ کے پاس آتے ہیں (عبرانیوں باب 12 آیت 9؛ ملاکی پہلا باب آیت 6)۔

 ہمیں حکم دیا جاتا ہے کہ ہم اپنے والدین کی عزت کریں۔ لیکن کیسے؟ اُن کی عزت اعمال اور رویوں دونوں کے

ساتھ کریں(مرقس باب 7آیت 6)۔ اُن کی کہی اور بِن کہی خواہشات کا احترام کریں۔ "دانش مند بیٹا اپنے باپ کی تعلیم کو

سُنتا ہے لیکن ٹھٹھّا باز سرزنش پر کان نہیں لگاتا” (امثال باب 13 پہلی آیت )۔ متی باب 15 آیات 3تا 9 میں یسوع

فریسیوں کو خُدا کے حکم کی یاد دِلاتا ہے کہ وہ اپنے باپ اور ماں کی عزت کریں۔ کیونکہ وہ دس احکام کے مطابق زبانی

فرمانبرداری کر رہے تھے، لیکن اُنہوں نے اپنی روایات کو شامل کرکے اس کے عملی اطلاق کو باطل کر دیا تھا۔ اگرچہ وہ

الفاظ میں اپنے والدین کی عزت کرتے تھے، لیکن اُن کے اعمال نے اُن کے اصل مقصد کو ثابت کر دیا جو کے نافرمانی کے

زمرے میں تھا۔اصل عزت کرنا ہونٹوں سے تعظیم کرنے سے زیادہ ہے۔ اِس حوالہ میں لفظ "عزت” فعل کے طور پر استعمال

ہوا ہے، یہ ایسا لفظ ہے جو درُست عمل کا مطالبہ کرتا ہے۔

ہمیں اپنے والدین کو اِس طرح سے زیادہ عزت دینے کی کوشش کرنی چاہیے جیسے ہم اپنے خیالات، الفاظ، اور اعمال میں

خُدا کو جلال دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک جوان بچے کے لئے اپنے والدین کی عزت کے ساتھ اُن کی فرمانبرداری کرنے

سے ہاتھ میں ہاتھ آ جاتا ہے (سونے پہ سہاگہ ہو جاتا ہے)۔ اِس میں سُننا، توجہ دینا، اور اُن کے اختیار کے تابع ہونا شامل

ہیں۔ بچوں کے بالغ ہونے کے بعد، فرمانبرداری جو اُنہوں نے بچوں کے طور پر سیکھی تھی ، حکومت، پولیس، کلسیا ،

اورآجروں ،جیسے دوسرے اختیارات کی عزت کرنے میں بھی اچھی طرح اُن کے کام آئے گی۔ خدا کے حضور اور معاشرے

میں بھی باعث برکت ہوگی۔

اگرچہ ہم سے والدین کی عزت کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے،لیکن اِس میں بے دین والدین کی تقلید کرنا شامل نہیں ہے(حزقی

ایل باب 20 آیات 18 تا 19 )۔ اگر والدین کبھی کسی بچے کو کچھ ایسا کرنے کی ہدایت کریں جو کہ واضح طور پر خُدا

کے حکم کے منافی ہو ، اُس بچے کو اپنے والدین کی بجائے خُدا کی فرمانبرداری کرنی چاہیے (اعمال باب 5 آیت 28 )۔

عزت کرنے سے عزت ملتی ہے۔ خُدا اُن کی عزت نہیں کرے گا جو اپنے والدین کو عزت دینے کے لئے اُس کے حکم کی

فرمانبرداری نہیں کرتے۔ اگر ہم خُدا کو خوش کرنے اور برکت حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، ہمیں اپنے والدین کی

عزت کرنی چاہیے۔ عزت کرنا، آسان نہیں ہے، ہمیشہ مزہ نہیں دیتی، اور یقینی طور پر ہماری خود کی طاقت سے ممکن

نہیں ہے۔ لیکن عزت خُدا کو جلال دینے والی زندگی میں ہمارے مقصد کا ایک خاص راستہ ہے۔ "اے فرزندو! ہر بات میں اپنے

ماں باپ کے فرمانبردار رہو کیونکہ یہ خُداوند میں پسندیدہ ہے” (کُلسیوں باب 3 آیت 20 )۔