باغی بچوں کی تربیت کے بارے میں بائبل کیا کہتی ہے

باغی بچوں کی تربیت کے بارے میں بائبل کیا کہتی ہے

بچے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص نعمت اور برکت ہیں ۔بائبل بچوں کی تربیت کے تعلق سے واضع ھدایات ہم تک

پہنچاتی ہے۔ کو ھر ایک بچے کی شخصیت دوسرے بچے سے مختلف ہوتی ہے۔ لیکن والدین کو یکساں محبت کے ساتھ

تربیت کی تلقین کی گئی ہے۔ اگر کوئی بچہ اپنے روئیے سےبغاوت کا اظہار کرتا ہے ہو سکتا ہے کہ وہ مختلف وجوہات کی

وجہ سے ایسا کر رہا ہو۔ ہمیں ان وجوہات کا کھوج لگانے اور انکا مناسب طریقے سے تدارک کرنے کی کوشش کرنا چاھئے۔

ہوسکتا ہے کہ والدین کا کرخت لہجہ اور بے جا ڈانٹ ڈپٹ، محبت سےخالی تربیت کا انداز، اوربے جا تنقید کی عادت کے

نتیجہ بھی بعض اوقات بغاوت سبب ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ ایسے سلوک کے خلاف سب سے زیادہ فرمانبردار بچہ بھی

اندرونی یا بیرونی طور پر بغاوت کی طرف جا سکتا ہے۔ قدرتی طور پر، اِس قسم کے والدین سے پرہیز ہی کیا جاتا ہے۔ اِس

کے علاوہ، والدین کے خلاف بغاوت کی ایک خاص مقدار تیرہ سے اُنیس سال کے نوجوانوں میں قدرتی ہے جو اپنی زندگی

کو قائم کرنے اور اپنی شناخت بنانے کے عمل میں آہستہ آہستہ اپنے خاندانوں سے جُدا ہو رہے ہیں۔

یہ فرض کرنے سے کہ باغی بچہ قدرتی طور پر ایک مضبوط مرضی کی شخصیت رکھتا ہے، اُس کی خصوصیات کو یعنی

اُسکی رغبت ،کنڑول سے باہر خواہش، اور تمام جائز اختیارات کے خلاف مزاحمت کرنے کی ذمہ داری اُسکی مضبوط

مرضی کی عادت پر ڈال دی جائے یہ اُسکی تربیت کے لئے درست نہیں۔ دوسرے الفاظ میں مضبوط مرضی کی عادت کو

آزاد چھوڑنا اور تربیت میں نہ آنےکا دوسرا نام بغاوت ہے۔ لیکن اسکے ساتھ یہ بھی یاد رکھیں کہ، یہ مضبوط مرضی کے

باغی بچے اکثر بہت ذہین ہوتے ہیں اور اپنے اردگرد کے حالات اور لوگوں پر کنڑول پانے کے طریقے تلاش کرتے ہوئے حیران

کُن رفتار کے ساتھ صورتحال کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ یہ بچے اپنے والدین کے لئے بے حد تکلیف دہ اور تھکاوٹ کا باعث

اور چیلنج ہو سکتے ہیں۔

خوش قسمتی سے، یہ بھی سچ ہے کہ خُدا نے بچوں کو بنایا ہے جیسے وہ ہیں۔ وہ اُن سے پیار کرتا ہے، اور اُس نے والدین

کو چیلنجوں کو پورا کرنے کے وسائل کے بغیر نہیں چھوڑا۔ بائبل کے اصول ہیں جو خُدا کے فضل کی بدولت مضبوط مرضی

کے باغی بچوں سے نمٹنے کی بات کرتے ہیں۔ پہلا، امثال باب 22 آیت 6 ہمیں بتاتی ہے، "لڑکے کی اُس راہ پر تربیت کر

جِس پر اُسے جانا ہے۔ وہ بُوڑھا ہو کر بھی اُس سے نہیں مڑے گا”۔ تمام بچوں کے لئے ، جِس راہ پر اُنہیں چلنا چاہیے وہ

راہ خُدا کی طرف جاتی ہے۔ خُدا کے کلام کی تعلیم تمام بچوں کے لئے ضروری ہے، اُنہیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ خُدا

کون ہے اور اُس کی بہترین خدمت کیسے کرنی ہے۔ مضبوط مرضی کے بچے کے لئےسمجھ بوجھ جو اُسے کنڑول کرنے کی

خواہش کے لئے متحرک کرے اُسے اپنا راستہ تلاش کرنے میں مدد فراہم کرتے ہوئے ایک لمبے راستہ پر لے کر چلے گی۔ باغی

بچے کوسمجھنا ضروری ہے کہ وہ دُنیا کا انچارج نہیں ہے، بلکہ خُدا ہے، اور اُسے صرف وہی کام کرنے چاہیے جو خُدا کی

راہ کے مطابق ہیں۔ یہ والدین سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اِس سچائی کا بالکل یقین کریں اور اِس کے مطابق زندگی

گزاریں۔ والدین جو خود خُدا کے خلاف بغاوت میں ہیں، اپنے بچے کو تابعداری کرنے کے لئے قائل نہیں کر سکتے ۔

ایک بار جب یہ قائم کر دیا گیا ہے کہ واحد خُدا ہی ہے جو اصول بناتاہے، والدین کو چاہیےکہ یہ بات بچے کے ذہن نشین

کریں کہ وہ خُدا کے آلہ کار ہیں اور وہ اپنے خاندانوں کے لئے خُدا کے منصوبہ کو پورا کرنے کے لئے ہر ضروری کام کریں

گے۔ ایک سرکش بچے کو لازمی سکھانا چاہیے کہ والدین کے لئے خُدا کا منصوبہ ہے کہ وہ قیادت کریں اور بچے اُن کی

پیروی کریں۔ اِس نقطہ پر کوئی کمزوری نہیں ہو سکتی۔ مضبوط مرضی کا بچہ ایک میل دُور تذبذب کا نشان لگا سکتا اور

قیادت کے خلا کو بھرنے اور کنڑول پانے کے لئے موقع ملتے ہی کود سکتا ہے۔ اختیار کی تابعداری کرنا اصل مضبوط مرضی

کے مالک بچے کے لئے اہم ہے۔ اگر بچپن میں تابعداری نہ سیکھی جائے،تو مستقبل آجروں، پولیس ، عدالتوں، اور عسکری

قیادتوں کے ساتھ لڑائی جھگڑوں میں گزرے گا۔ رومیوں باب 13 آیات 1تا 5 واضح طور پر سکھاتی ہے کہ ہم پر حکومتیں

خُدا کی طرف سے قائم کی گئی ہیں، اور ہمیں اُن کی تابعداری کرنی چاہیے۔

اِس کے علاوہ ایک مضبوط مرضی کا مالک بچہ صرف اُس وقت قوائد و قوانین کو مانے گا جب وہ اُس کے مطابق ہوں گے۔

اِس سچائی کو مسلسل دہراتے ہوئے اُسے حکومت کے لئے ٹھوس وجہ فراہم کریں، کہ ہم کام اُسی طریقے سے کرتے ہیں

جیسے خُدا چاہتا ہے کہ کئے جائیں، اور یہ حقیقت بحث کرنے کے قابل نہیں ہے۔ وضاحت کریں کہ خُدا نے والدین کو اپنے

بچوں سے محبت کرنے اور اُن کی تربیت کرنے کی ذمہ داری دی ہے، اور ایسا کرنے میں ناکامی کا مطلب ہے کہ والدین خُدا

کی نافرمانی کر رہے ہیں۔تاہم،جب بھی ممکن ہو، بچے کی فیصلے کرنے میں مدد کے مواقع فراہم کریں تاکہ وہ مکمل طور

پر اپنے آپ کو لاچار محسوس نہ کریں۔ مثال کے طور پر، چرچ جانا مذاکرات کے قابل نہیں ہے کیونکہ خُدا ہمیں دوسرے

ایمانداروں کے ساتھ اکٹھے ہونے کا حکم دیتا ہے (عبرانیوں باب 10 آیت 25 )، لیکن بچے (کسی وجہ سے ) سے فیصلے کر

سکتے ہیں کہ وہ کونسے کپڑے پہنیں، اور اُن کے گھرانے کو کہاں بیٹھنا چاہیے وغیرہ۔ اُنہیں منصوبے فراہم کریں جِن میں

وہ خاندانی چھٹیوں کے منصوبے اپنی رائے دے سکتے ہیں۔

اِس کے علاوہ ، والدین کو اپنے ذمہ داریاں استحکام اور صبر کے ساتھ پوری کرنی چاہیے۔ والدین کو کوشش کرنی چاہیے

کہ وہ غصہ میں اپنی آواز بُلند نہ کریں یا آپے سے باہر ہو کر ہاتھ نہ اُٹھا لیں۔ اِس سے مضبوط مرضی کا بچہ بھی کنڑول

کرنا سیکھے گا جِس کی وہ خواہش کرے گا/گی، اور وہ تیزی سے اِس نتیجہ پر بھی پہنچ جائے گا/گی کہ آپ کو اِس حد

تک مایوس کرنے سے کہ آپ جذباتی ہو جائیں آپ کو کنڑول کیسے کرنا ہے۔ اِن بچوں کی جسمانی تربیت اکثر ناکام ہو

جاتی ہے کیونکہ وہ والدین کو نقطہ شکستگی تک پہنچانے میں بہت زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں، وہ محسوس کرتے ہیں کہ

تھوڑے سے درد کی قیمت ادا کرنا کارآمد ہے۔ مضبوط مرضی کے مالک بچوں کے والدین اکثر خبر دیتے ہیں کہ اُن کے بچوں

کو اگرچہ چوتڑوں پر مار پڑ رہی ہو تو بھی وہ والدین پر ہنستے ہیں، اتنی ماربھی اُن کی تربیت کا بہترین طریقہ نہیں ہو

سکتی ۔ممکن ہے اِن بچوں کی زندگی میں مسیحی پھل صبر اور پرہیزگاری نہ ہو (گلتیوں باب 5 آیت 23 )جن کی مضبوط

مرضی کے /باغی بچے کو بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

اِس بات سےکوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ بچے والدین کو کتنا غصہ دِلا سکتے ہیں، والدین خُدا کے وعدہ میں اطمینان حاصل

کر سکتے ہیں کہ خُدا ہمیں ایسی آزمائش میں نہیں پڑنے دیتا جو ہماری برداشت سے باہر ہو (پہلا کرنتھیوں باب 10 آیت

13 )۔ اگر خُدا اُنہیں مضبوط مرضی کا مالک بچہ دیتا ہے، والدین اِس بات کا یقین کر سکتے ہیں کہ خُدا نے غلطی نہیں کی

اور وہ ہدایات اور وسائل مہیا کرے گا جن کی اُن کو اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ضرورت پڑتی ہے۔ممکن ہے والدین کی

زندگی میں”بلا ناغہ دُعا ” (پہلا تھسلُنیکیوں باب 5 آیت 17 ) کے الفاظ مضبوط مرضی کے مالک نوجوان کے لئے زیادہ پُر

معنی نہ ہوں۔ اِن بچوں کے والدین کو حکمت کے لئے اپنا بہت سا وقت خُداوند کے سامنے گھٹنوں پر گزارنا چاہیے جِس کے

دینے کا خُداوند نے وعدہ کیا ہے (یعقوب پہلا باب آیت 5)۔ آخر میں، اس بات کو جان لینے میں سکون ہے کہ مضبوط مرضی

والے بچے جن کی اچھی تربیت کی جاتی ہیں اکثر کامیاب جوانوں کےطور پر پروان چڑھتے ہیں۔ بہت سے باغی بچے تبدیل

ہو کر جُرات مند، تابعدار مسیحی بن گئے ہیں، جوخُداوند کی خدمت کرنے کے لئے اپنے قابلِ غور توڑوں کو استعمال کرتے

ہیں ، وہ اپنے صابر اور محنتی والدین کی کاوشوں کے وسیلہ سے محبت اور احترام کی راہ پر آ گئے ہیں۔