کیا انسان خُدا کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے؟

کیا انسان خُدا کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے؟

صدیوں سے بے دین لوگوں اور ناستکوں کے دعوؤں کے برعکس، انسان خُدا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ انسان خُدا کو

تسلیم کئے بغیر فانی وجود تو رکھ سکتا ہے، لیکن خُدا کی حقیقت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔

خالق کے طور پر خُدا نے انسانی زندگی کا آغاز کیا

یہ کہنا کہ انسان خُدا کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے دراصل یہ کہنا ہے کہ ایک گھڑی گھڑی ساز کے بغیر بن سکتی ہے، یا

ایک کہانی لکھاری کے بغیر معرض وجود میں آ سکتی ہے۔ ہم اپنے وجود کے لئے خُدا کے شکر گزار ہیں جس کی صورت و

شبیہ پر ہم بنائے گئے (پیدائش 27:1 )۔چاہے ہم تسلیم کریں یا نہ کریں ہمارے وجود کا انحصار خُدا پر ہے۔

(32- ایک کفیل کے طور پر، خُدا مسلسل زندگی کو قائم رکھتا ہے (زبور 10:104

وہ زندگی ہے (یوحنا 6:14 )، اور ساری تخلیق یسوع کی قدرت سے قائم رہتی ہے (کُلسیوں 17:1 )۔ یہاں تک کہ جو یسوع کو

ردّ کرتے ہیں وہ بھی اُسی کی وجہ سے قائم ہیں۔ "تاکہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو کیونکہ وہ اپنے سورج

کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راست بازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے” (متی 45:5 )۔ یہ سوچنا

کہ انسان خُدا کے بغیر رہ سکتا ہے یہ فرض کرنا ہے کہ سورج مکھی روشنی کے بغیر ، یا گلاب کا پھول پانی کے بغیر

زندہ رہ سکتا ہے۔

نجات دہندہ کے طور پر، خُدا اُن کو ابدی زندگی دیتا ہے جو اُس پر ایمان لاتے ہیں

مسیح یسوع میں زندگی ہے جو آدمیوں کے لئے نور ہے (یوحنا 4:1 )۔ یسوع اِس لئے آیا کہ ہم زندگی پائیں "اور کثرت سے

16 )۔ اگر – پائیں” (یوحنا 10:10 )۔ جتنے اُس پر ایمان لاتے ہیں اُن کے ساتھ ابدی زندگی کا وعدہ کیا گیا ہے (یوحنا 3:15

انسان واقعی زندہ رہنا چاہتا ہے تو ضرور ہے کہ وہ یسوع کو جانے (یوحنا 3:17 )۔

خُدا کے بغیر انسان صرف جسمانی زندگی گزار سکتا ہے

خُدا نے آدم اور حوا کو خبردار کیا کہ جس دن اُنہوں نے خُدا کا حکم توڑا وہ "مر” جائیں گے (پیدائش 17:2 )۔ جیسا کہ ہم

جانتے ہیں کہ انہوں نے نافرمانی کی، لیکن وہ اُس دن جسمانی طور پر نہیں مرے، بلکہ وہ روحانی طور پر مر گئے تھے۔ اُن

کے اندر سے روحانی زندگی، خُدا کے ساتھ رفاقت، اُس سے لطف اندوز ہونے کی آزادی، اُن کی جانوں اور روحوں کی

معصومیت اور پاکیزگی سب کچھ ختم ہو گئی تھیں۔

آدم جسے خُدا کی شراکت میں رہنے کے لئے تخلیق کیا گیا تھا، مکمل طور پر جسمانی وجود کے ساتھ لعنتی ٹھہرا۔ جس

خاک کو خُدا نے جلال دینے کا ارادہ کیا تھا، اب وہ خاک میں مل گئی۔ آدم کی طرح آج بھی انسان خُدا کے بغیر زمینی

وجود رکھ سکتا ہے۔ ایسا شخص خوش نظر آسکتاہے، اِس زندگی میں وہ خوش وخرم رہ کر لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ لیکن

یہ لطف اندوزیاں اور خوشیاں بھی خُدا کے ساتھ تعلقات کے بغیر مکمل طور پر حاصل نہیں ہو سکتیں۔

بعض لوگ جو خُدا کو ردّ کرتے ہیں خدا کےانکاری اور عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہیں۔ اُن کا یہ جسمانی شُغل بےاور

فکر اور فرحت بخش وجود پیدا کرتا ہے۔ بائبل بیان کرتی ہے کہ گناہ میں ہونے والی خوشی کا ایک خاص انداز ہے مگر

اسکی حقیقت (عبرانیوں 25:11 )۔ یہ ہے کہ یہ خوشی چند روزہ ہوتی ہے۔ اِس دُنیا میں گزاری جانے والی زندگی مختصر

12 )۔ مصرف بیٹے کی تمثیل میں مصرف بیٹے کی طرح لذت پسند شخص کو جلد یا بعد میں پتہ چلتا ہے کہ – ہے (زبور 3:90

15:13 )۔ – دُنیاوی لذت وقتی اور بے فائدہ ہے (لوقا 15

تاہم، خُدا کو ردّ کرنے والا ہر شخص خالی خوشی کا طالب نہیں ہے۔ بہت سے ایسے غیر نجات یافتہ لوگ ہیں جو نظم و

ضبط اور سنجیدگی ، یہاں تک کہ خوشحال اور لطف اندازی سے بھری زندگی گزارتے ہیں۔ بائبل کچھ مخصوص اصول

پیش کرتی ہے جس سے اِس دُنیا میں کسی کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے جس میں وفاداری، ایمانداری، اور ضبط نفسِ

وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن دوبارہ کہتے ہیں کہ خُدا کے بغیر یہ صرف اِسی دُنیا میں حاصل ہوتا ہے۔ اِس دُنیا میں پُر آسائش

16 میں موجود امیر – زندگی اِس بات کی ضمانت نہیں ہے کہ ہم بعد کی زندگی کے لئے بھی تیار ہو گئے ہیں۔ لوقا 12:12

23 میں موجود اُمیر شخص کی زندگی پر غور کریں۔ – کسان کی تمثیل ، اور متی 19:16

خُدا کے بغیر انسان اپنی فانی زندگی میں بھی ادھورا ہے

انسان اپنےساتھی ہم جنس انسان کے ساتھ آسودہ نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے آپ میں آسودہ نہیں ہے۔ انسان اپنے آپ میں

بے قرار ہے کیونکہ وہ خُدا کے ساتھ امن کی حالت میں نہیں ہے۔ خوشی کی خاطر، خوشی کا تعاقب اِس بات کی علامت

ہے کہ انسان اندرونی خرابی کا شکار ہے۔ تاریخ اِس بات کی گواہی دیتی ہے کہ خوشی کے طالب اپنے اِس زندگی کی

خوشی کی جتنی بھی جستجو کر لیں وہ اپنے اندر گہری مایوسی محسوس کرتے ہیں۔ اِس احساس کو کہ "کچھ تو غلط

ہے” ختم کرنا مشکل ہے۔ سلیمان بادشاہ نے خود کو اِس دُنیا کی ہر خوشی کے حصول کے لئے پیش کر دیا، اور اُس نے

اپنی دیارفت کردہ تمام اشیا کو واعظ کی کتاب میں قلمبند کیا ہے۔

18 )۔ اُس نے معلوم کیا کہ خوشی – سلیمان نے دریافت کیا کہ علم خود میں اور خود سے دُکھ کی فراوانی ہے (واعظ 1:12

23 )، اور دولت عارضی ہے (باب 6)۔ – 11 )، مادہ پرستی بیوقوفی ( 2:12 – اور دولت بطلان ( 2:1

13 ) اور عقلمندی اِسی میں کہ خُدا کے خوف میں زندگی – سیلمان نے نتیجہ اخذ کیا کہ زندگی خُدا کی نعمت ہے ( 3:12

گزاری جائے، "اب سب کچھ سُنایا گیا۔ حاصل کلام یہ ہے ۔ خُدا سے ڈر اور اُس کے حکموں کو مان کہ انسان کا فرضِ

کُلی یہی ہے۔ کیونکہ خُدا ہر ایک فعل کو ہر ایک پوشیدہ چیز کے ساتھ خواہ بھلی ہو خواہ بُری عدالت میں لائے گا” (واعظ

(14-12:13

دوسرے الفاظ میں، زمینی زندگی سے زیادہ اہم بعد کی زندگی ہے۔ یسوع نے اِس نقطہ پر یہ کہتے ہوئے زور دیا، "آدمی

صرف روٹی سے ہی جیتا نہیں رہے گا بلکہ ہر اُس بات سے جو خُد اکے منہ سے نکلتی ہے” (متی 4:4 )۔ جسمانی روٹی

نہیں بلکہ خُدا کا کلام (روحانی روٹی) ہمیں زندہ رکھتی ہے۔ اپنی تمام مصیبتوں کا علاج اپنے اندر تلاش کرنا بے سُود ہے۔

انسان صرف اُس وقت زندگی حاصل کر سکتا ہے جب وہ خُدا کو تسلیم کرتا ہے۔

خُدا کے بغیر انسان کی منزل جہنم ہے

انسان خُدا کے بغیر روحانی طور پر مُردہ ہے، جب اُس کی جسمانی زندگی ختم ہو جاتی ہے تو وہ خدا سے ابدی جُدائی کا

سامنا کرتا ہے۔ امیر شخص اور غریب لعزر کے بارے میں یسوع کے بیان میں، امیر شخص خُدا کے بغیر خوشگوار زندگی

گزارتا ہے، جبکہ لعزر اپنی زندگی دکھوں میں گزارتا لیکن خُدا سے واقف ہوتا ہے۔ اپن اموات کے بعد دونوں اپنی زمینی

زندگی میں اپنی مرضی کے نتائج کو سمجھتے ہیں۔ امیر شخص کو احساس ہونے میں بہت دیر ہو چُکی تھی کہ دولت کے

حصول کے مقابلے میں زندگی زیادہ اہم ہے۔ اِسی طرح، لعزر کو فردوس میں آرام کی جگہ میسر ہوئی۔ دونوں اشخاص کے

لئے، اُن کی رُوحوں کی ابدی حالت کے مقابلے میں ، اُن کے زمینی وجود کی مختصر مُدت کم اہمیت کی حامل ٹھہری۔

انسان ایک منفرد تخلیق ہے۔ خُدا نے ہمارے دلوں میں ابدیت کا احساس قائم کیا ہے (واعظ 11:3 )، اور صرف وقت کی قید

سے ماروا منزل کا احساس ہی ہمیں اس قابل کر سکتا ہے خدا تعالیٰ کے بغیر ہم ادھورے ہیں۔ متی 26:16 ۔ ۔

!مسیحی بپتسمہ کی ضرورت اور اہمیت

!مسیحی بپتسمہ کی ضرورت اور اہمیت

مسیح یسوع پر ایمان لانے والون کےلئے یسوع مسیح نے جو دو مذہبی رسومات مقرر کئے ہیں ان میں سے ایک یہ مسیحی

بپتسمہ ہے۔ آسمان پر سعود فرمانے سے پہلے یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا تھا کہ ’’تم جاکر سب قوموں کو شاگرد بناؤ

اورانکو باپ، بیٹے اور روح القدس کے نام سے بپتسمہ دو۔ اور ان کو یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جن کا میں

 28-20:19  نے تمکو حکم دیا اور دیکھو میں دنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘ متی

یہ ہدایات تفصیل کےساتھ بیان کرتی ہیں کہ کلیسیا یسوع کے کلام کو سکھانے، شاگرد بنانے اور اُن شاگردوں کو بپتسمہ دینے کی ذمہ دار ہے۔

اور اِن چیزوں کو ہر جگہ (تمام قوموں میں) دنیا بھر میں زمانہ کے آخر تک کیا جانا ضروری ہے۔ یہ مسیح کا آخری حکم

ہے اور خداوند یسوع مسیح خود یہ حکم دیا ااس لئے بپتسمہ کی مسیحی تعلیم بہت اہمیت رکھتی ہے۔

بپتسمہ کا رواج کلسییا کی بنیاد ڈالے جانے سے پہلے تھا۔ قدیم زمانہ کے یہودی اپنے نومریدوں کو بپتسمہ دیتے تھے یہ

ثابت کرنے کے لئے کہ وہ فطری طور سے پاک ہو چکے ہیں۔ یوحنا اصطباغی نے خداوند مسیح کی راہ کو تیار کرنے کے لئے

بپتسمہ کا استعمال کیا۔ اس میں نہ صرف یہودی تھے بلکہ غیر یہودی بھی شامل تھے کیونکہ ہر ایک کو توبہ کی ضرورت

 اور یوحنا سب کو تو بہ کا بپتسمہ دیتا تھا۔ سو کسی طرح یوحنا کا بپتسمہ توبہ کو ظاہر کرتا تھا۔ مگر یہ بپتسمہ مسیحی بپتسمہ کے مانند نہیں ہے

19 ) میں جس طرح دیکھا گیا ہے -7:1 ؛27- ۔ رسولوں کے اعمال کی کتاب ( 24:18

مسیحی بپتسمہ کا ایک گہرا ثبوت ہے۔

بپتسمہ باپ بیٹا اور روح القدس کے نام سے دیا جانا چاہیے۔ یہی حقیقت میں ’’مسیحی بپتسمہ‘‘ کہلاتا ہے۔ اس رواج کے

ذریعے ہی ایک ایمان لائے ہوئے شخص کو کلیسیا کی رفاقت میں داخل ہونے یا شریک ہونے کی اجازت دی جاتی ہے۔ جب ہم

بچائے جاتے ہیں تو ہم مسیح کے بدن میں ہوکر روح القدس سے بپتسمہ حاصل کرتے ہیں۔ اور یہ مسیح کا بدن ہی کلیسیا

کہلاتا ہے چاہے یہودی ہوں یا غیر یہودی، چاہے غلام ہوں یا آزاد، چاہے کسی بھی قوم یا طبقہ سے کیوں نہ آئے ہوں ہم سب

کو ایک ہی روح سے پلایا گیا ہے۔ پانی کے ذریعے بپتسمہ دیا جانا روح سے بپتسمہ دیا جانے کا ایک واضع قانون ہے۔

مسیحی بپتسمہ ایک وسیلہ ہے جس کے ذریعے سے ایک شخص اپنے ایمان کا اور مسیح کے پیچھے چلنے کا علانیہ طور

سے دعویٰ پیش کرتا ہے۔ پانی کے بپتسموں میں ایک شخص کہتا ہے ’’ زبان سے میں مسیح پر ایمان رکھنے کا اقرار کرتا

ہوں۔ یسوع مسیح نے میری جان کو گناہ سے بچایا ہے اور اب مجھ میں مخصوصیت کی ایک نئی زندگی پائی جاتی ہے۔

مسیحی بپتسمہ مثال کےطور اظہار ہے کہ میں مسیح کی موت، دفن اور قیامت (جی اٹھنا) میں شریک ہوا ہوں۔ اور اسی

کے ساتھ ہی گناہ کے لئے مر جانے اور مسیح میں ایک نئی زندگی کی شروعات کرنے کو بھی پیش کرتی ہے۔ جب ایک گنہ

گار شخص خداوند یسوع مسیح کا اقرار کرتا ہے تو وہ گناہ کے لئے مر چکا ہوتا ہے (رومیوں 11:6 ) اور بالکل نئی زندگی

کے لئے جی اٹھتا ہے (کلیسوں 12:2 )۔ پانی میں ڈبویا جانا گناہ کے لئے مرنے کو ظاہر کرتا ہے اور پانی سےباہر آنا گناہ

سے پاک کئے جانے اور مقدس زندگی جینے کی طرف اشارہ کرتا ہے جو نجات پاجانے کو پیش کرتی ہے۔ (رومیوں 6:4 میں

اس طرح لکھا ہے کہ ’’پس موت میں شامل ہونے کے بپتسمہ کے وسیلہ سے ہم اس کے ساتھ دفن ہوئے تاکہ جس طرح مسیح

باپ کے جلال کے وسیلہ سے مردوں میں سے جلایا گیا اُسی طرح ہم بھی نئی زندگی میں چلیں۔‘‘

اِسے سمجھنا بہت آسان ہے کہ بپتسمہ ایک ایماندار کی زندگی میں باطنی بدلاؤ کا ایک ظاہری نشان ہے۔ نجات پانے کے

بعد خداوند کی تابعداری کا ایک عمل مسیحی بپتسمہ ہے! حالانکہ بپتسمہ نجات کے ساتھ قریب سے جڑا ہوا ہے پھر بھی

بچائے جانے یعنی نجات پانے کےلئےاس کی ضرورت نہیں ہے۔ کلامِ پاک کئی جگہوں میں بتاتا ہے کہ پہلے واقعہ کے پہلے

منظر میں ایک شخص خدواند یسوع پر ایمان لے آتا ہے اور واقعہ کے دوسرے منظر میں وہ بپتسمہ لیتا ہے۔ اس سلسلہ کو

اعمال کی کتاب 41:2 میں دیکھا جاسکتا ہے ’’جنہوں نے پطرس کے پیغام کو قبول کیا انہوں نے بپتسمہ لیا۔‘‘

یسوع مسیح میں ایک نئے ایماندار کو جلد سے جلد بپتسمہ لینے کی خواہش ہونی چاہیے۔ اعمال کی کتاب کے آٹھویں باب

میں فلپس اِتھوپیہ کے ایک خوجہ کو یسوع کے بارے میں خوشخبری سناتا ہے۔ اور جب وہ شاہی رتھ میں سوار ہوکر سفر

کر رہے تھے تو خوجہ ایک پانی کی جگہ کو دیکھ کر فلپس سے کہتا ہے کہ ’’دیکھ یہاں پانی موجود ہے۔

  اب مجھے بپتسمہ لینے سے کونسی چیز روک سکتی ہے۔ اُسی وقت رتھ کو رکوایا اور فلپس نے خوجہ کو بپتسمہ دیا۔‘‘

36-35:8اعمال

بپتسمہ مسیح کی موت، دفن اور قیامت کے ساتھ ایک ایماندار کے ایک ہو جانے کی تصویر پیش کرتا ہے۔ دنیا کی سب

جگہوں میں انجیل کی منادی کی جاتی ہے اور لوگ مسیح پر ایمان لاکر اس کی طرف کھینچے چلے جاتے ہیں اور جو بھی

ایمان لاکر مسیحی بنتے ہیں انہیں بپتسمہ دیا جانا ضروری ہے۔ کیونکہ یہ یسوع میسح کا حکم ہے۔

قیامت المسیح(مُردوں میں سے زندہ ہونا) کے بارے میں تعلیم۔

قیامت المسیح(مُردوں میں سے زندہ ہونا) کے بارے میں تعلیم۔

قیامت المسیح کئی وجوہات کی بنا پر اہم ہے۔ سب سے پہلے مُردوں کا جی اُٹھنا خود خُدا کی قدرت کی گواہی ہے۔ مُردوں

کی قیامت پر ایمان رکھنا خُدا پر ایمان رکھنا ہے۔ اگر خُدا ہے، اور اگر اُس نے کائنات کو تخلیق کیا ہے اور اُس پر قدرت

رکھتا ہے، تو اُس کے پاس مُردوں کو زندہ کرنے کی بھی قدرت ہے۔ اگر اُس کے پاس ایسی قدرت نہیں ہے، تو وہ ہماری

پرستش اور ایمان کے لائق نہیں ہے۔ جس نے زندگی تخلیق کی ہے صرف وہی موت کے بعد دوبارہ زندہ کر سکتا ہے، صرف

وہی بھیانک پن کو تبدیل کر سکتا ہےجو خُود موت ہو، اور صرف وہی ڈنک کو مٹا سکتا ہے اور قبر پر فتح پا سکتا ہے ( ۱۔

کرنتھیوں ۵۴:۱۵ ۔ ۵۵ )۔ مسیح یسوع کے قبر سے جی اُٹھنے میں ، خُدا ہمیں زندگی اور موت پر مطلق حاکمیت کی یاد دِلاتا

ہے۔

قیامت المسیح اِس لئے بھی اہم ہے کیونکہ یہ اُس بات کی تصدیق کرتی ہے جس کا دعویٰ یسوع یعنی خُدا کے بیٹے مسیح

نے کیا تھا۔ یسوع مسیح کے مطابق اُس کی قیامت ایک "آسمانی نشان” تھا جس سے اُس کی خدمت کی تصدیق ہوتی

تھی (متی ۱:۱۶ ۔ ۴)، اور اُسکی قیامت اِس بات کا بھی ثبوت تھی کہ وہ یروشلیم کی ہیکل پر بھی اختیار رکھتا ہے

(یوحنا ۱۸:۲ ۔ ۲۲ )۔ یسوع مسیح کی قیامت کی تصدیق سینکڑوں عینی شاہدین سے ہوتی ہے ( ۱۔کرنتھیوں ۳:۱۵ ۔ ۸)۔ یسوع کی

قیامت ناقابلِ تردید ثبوت فراہم کرتی ہے کہ وہ دُنیا کا نجات دہندہ ہے۔

قیامت المسیح اِس لئے بھی اہم ہے کیونکہ یہ اُس کے بے گناہ کردار اوراُس کی الٰہی فطرت کو ثابت کرتی ہے۔ بائبل بیان

کرتی ہےکہ خُدا "قدوس” اپنے مُقدّس کو سڑنے نہیں دیگا (زبور ۱۰:۱۶ )، اور یسوع کو باوجود اُس کے مرنے کے سڑنے کی

نوبت نہ آئی (دیکھیں ۳۲:۱۳ ۔ ۳۷ )۔ یہ یسوع المسیح کی قیامت ہی تھی کہ پولُس نے یہ منادی کی، "پس اے بھائیو! تمہیں

معلوم ہو کہ اُس کی وسیلہ سے تم کو گناہوں کی معافی کی خبر دی جاتی ہے۔ اور موسیٰ کی شریعت کے باعث جن باتوں

سے تم بَری نہیں ہو سکتے تھے اُن سب سے ہر ایک ایمان لانے والا اُس کے باعث بَری ہوتا ہے” (اعمال ۳۸:۱۳ ۔ ۳۹ )۔

قیامت المسیح نہ صرف اُس کی الُوہیت کی عظیم توثیق ہے، بلکہ یہ عہد عتیق کی بھی توثیق کرتی ہے جس نے یسوع کے

دکھوں اور قیامت کے بارے میں پیشن گوئیاں کیں (دیکھیں ۲:۱۷ ۔ ۳)۔ یسوع السمیح کی قیامت خود اُس کے اپنے دعوؤں کو

۳۴:۱۰ )۔ اگر یسوع مسیح زندہ نہیں ہوا، تو ہمارے ؛۳۱:۹؛ صادق ثابت کرتی ہے کہ وہ تیسرے دن جی اُٹھے گا (مرقس ۳۱:۸

پاس بھی زندہ ہونے کی اُمید نہیں ہے، حقیقت میں، قیامت المسیح کے بغیر، ہمارے پاس کوئی نجات دہندہ نہیں ہے ، ہمارے

پاس کوئی نجات نہیں ہے ، اور ابدی زندگی کی کوئی اُمید نہیں ہے۔ جیسا کہ پولُس بیان کرتا ہے، ہمارا ایمان لانا "بے

فائدہ” ہے، انجیل کی گواہی مکمل طور پر مفلوج ہے، اور ہم اب تک اپنے گناہوں میں گرفتار ہیں، کیونکہ ہمارے گناہ اب تک

معاف نہیں ہوئے ( ۱۔کرنتھیوں ۱۴:۱۵ ۔ ۱۹ )۔

یسوع نے کہا، "قیامت اور زندگی میں ہوں”، اِس بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ دونوں کا منبع وہی ہے۔ یسوع مسیح کے بغیر

قیامت اور ابدی زندگی ممکن نہیں ہے۔ یسوع زندگی دینےسے کہیں بڑھ کر ہے، وہ خود زندگی ہے، اِس لئے موت کو اُس پر

کوئی اختیار نہیں ہے۔ یسوع اُن کو بھی زندگی بخشتا ہے جو اُس پر ایمان لاتے ہیں، تاکہ ہم موت پر اُسکی فتح کو بانٹ

سکیں ( ۱۔یوحنا ۱۱:۵ ۔ ۱۲ )۔ ہم جو یسوع مسیح پر ایمان رکھتے ہیں ذاتی طور پر بھی جسم کی قیامت کا تجربہ حاصل

کریں گے، کیونکہ ہمارے پاس وہ زندگی ہے جو یسوع دیتا ہے، ہم موت پر غالب آئے ہیں۔ موت کے لئے ہم پر فتح پانا ناممکن

ہے ( ۱۔کرنتھیوں ۵۳:۱۵ ۔ ۵۷ )۔

یسوع "سوئے ہوؤں میں سے پہلا پھل ٹھہرا” ( ۱۔کرنتھیوں ۲۰:۱۵ )۔ دوسرے الفاظ میں، اُس نے موت کے بعد زندگی کے راستے

کے لئے رہمنائی کر دی ہے۔ یسوع مسیح کی قیامت انسانوں کی قیامت کی گواہی کے طور پر بھی اہم ہے، جو کہ مسیحی

ایمان کا بنیادی اصول ہے۔ دوسرے مذاہب کے برعکس، مسیحیوں کا ایک بانی ہے جو موت اور عہود کو اپنے ماننے والوں

میں بھی منتقل کرتا ہے تاکہ وہ بھی ایسا ہی کریں۔ دوسرے ہر مذہب کو نبیوں یا انسانوں کی طرف سے قائم کیا گیا ہے

جن کا خاتمہ قبر پر ہو گیا۔ مسیحی ہونے کے ناطے ہم جانتے ہیں کہ خُدا انسان بنا، ہمارے گناہوں کی خاطر مُوا، اور

تیسرے دن مُردوں میں سے جی اُٹھا۔ قبر اُس کو اپنے اندر جکڑ نہ سکی۔ وہ زندہ ہے، اور آج آسمان پر باپ کی داہنی

طرف بیٹھا ہے (عبرانیوں ۱۲:۱۰ )۔

خُدا کا کلام یسوع مسیح کی آمد اور اُس کی کلیسیا کے اُٹھائے جانے (ریپچر) پر ایمانداروں کی قیامت کی ضمانت دیتا

ہے۔ ایسی یقین دہانی کا نتیجہ فتح کا ایک عظیم گیت ہوتا ہے جیسا کہ پولُس ۱۔کرنتھیوں ۵۵:۱۵ میں لکھتا ہے، "اے موت

تیری فتح کہاں رہی؟ اے موت تیرا ڈنک کہاں رہا؟” (ہوسیع ۱۴:۱۳ بھی دیکھیں)۔

یسوع مسیح کی قیامت کی اہمیت خُداوند کے لئے ہماری خدمت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ پولُس رسول قیامت پر اپنے بیان

کا اختتام اِن الفا ظ میں کرتا ہے: "پس اے میرے عزیز بھائیو! ثابت قدم اور قائم رہو اور خُداوند کےکام میں ہمیشہ افزائش

کرتے رہو کیونکہ یہ جانتے ہو کہ تمہاری محنت خُداوند میں بے فائدہ نہیں ہے” ( ۱۔کرنتھیوں ۵۸:۱۵ )۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں

کہ ہم نئی زندگی کے لئے زندہ کئے جائیں گے، اِس لئے ہم مسیح کی خاطر ایذہ رسانیوں اور خطرات کو برداشت کر سکتے

ہیں، جیسے ہمارے خُداوند نے برداشت کیں۔ یسوع مسیح کی قیامت کی وجہ سے، تاریخ میں ہزاروں مسیحی شُہدا نے

ہمیشہ کی زندگی اور قیامت کے عہد کی خاطر اپنی زندگیاں قُربان کیں۔

قیامت ہر ایماندار کے لئے شاندار فتح اور خوشی کا شادیانہ ہے۔یسوع مسیح بائبل کے مطابق مر گیا، دفن ہوا، اور تیسرے

دن جی اُٹھا ( ۱۔کرنتھیوں ۳:۱۵ ۔ ۴)۔ اور وہ دوبارا آ رہا ہے! جو مسیح میں مرے وہ جی اُٹھیں گے، اور جو اُس کی آمد پر

زندہ ہوں گے وہ بدل جائیں گے اور نئے جلالی بدن حاصل کریں گے ( ۱۔تھِسلُنیکیوں ۱۳:۴ ۔ ۱۸ )۔ قیامت المسیح اہم کیوں ہے؟

یہ ثابت کرتی ہے کہ یسوع کون ہے۔ یہ ثابت کرتی ہے کہ خُدا نے ہماری جگہ یسوع کی قربانی کو قبول کیا ہے۔ یہ ظاہر

کرتی ہے کہ خُدا مُردوں کو زندہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ یہ ضمانت دیتی ہے کہ جتنے مسیح پر ایمان لاتے ہیں اُن کے

جسم مُردہ نہیں رہیں گے بلکہ ابدی زندگی کے لئے زندہ کئے جائیں گے۔

روزہ کے بارےمیں بائبل کیا تعلیم دیتی ہے

روزہ کے بارےمیں بائبل کیا تعلیم دیتی ہے

روزہ کے بارے میں تصور و تعلیم مختلف مذاھب میں پائی جاتی ہے۔ جن میں الہامی اور غیر الہامی کہلانےوالے

دونوں طرح کے مذاھب شامل ہیں۔ ان تمام مذاھب میں روزہ رکھنےکا طریقہ اسکے اوقات اور مقاصد بھی

مختلف طرح سے پائے جاتے ہیں۔ بائبل جب روزہ کے تعلق سے مسیحوں سے مخاطب ہوتی ہے تو کلام پاک

مسیحیوں کو روزہ رکھنے کا حکم نہیں دیتا۔ خدا کو اس ضرورت نہیں ہے یا مسیحیوں سے وہ اس کا تقاضہ

بھی نہیں کرتا۔ لیکن اسکےساتھ ہی کلام پاک روزہ کو ایک اچھی چیز کے طور پر، فائدہ مند اور نفع بخش بتاتا

ہے۔ اعمال کی کتاب میں ایمانداروں کا روزہ رکھنےکے تعلق سے ذکر ملتا ہےکہ جب بھی وہ کوئی فیصلہ کرناچاھتے تھے

(23:14 ,۔  اس سے پہلے روزہ رکھتے تھے۔روزہ اور دعا اکثر یہ ایک ساتھ جڑے ہوئےہیں (اعمال 2:13

(33:5,۔ اکثر روزہ کا مطلب ایک یا دو وقت کے کھانے کو ترک کردینا ہوتا ہے۔مگر حقیقت  (لوقا 37:2

میں روزہ کا مقصد دنیا کی باتوں کو زندگی سے ہٹادینے کے لئے ہونا چاہئے تاکہ ہمارا پورا دھیان خدا کی طرف

لگا رہے۔ روزہ خدا کو یہ بتانا اورخود کو باور کرانا کہ ہم خدا کے ساتھ رشتہ کے لئے سنجیدہ ہیں۔ روزہ خدا

کے ساتھ زیادہ قریب ہونے کاایک نیا آغاز اور خدا پر نئے طور انحصار و بھروسہ کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔

گو کلام میں روزہ میں کھانے سے فاقہ کرنے کی بابت لکھا ہؤا ہے مگر روزہ رکھنے کے کچھ اور طریقے بھی

پائے جاتے ہیں۔ جیسے کہ خدا پر پوری طرح سے دھیان دینے کے لئے، کسی بھی بات کو (اپنے کام کاج، محنت

(5-۔ روزہ کا ایک ٹھرایا – ومشقت) کو چھوڑ کر دعا بندگی میں وقت گزارنا بھی روزہ کہلاتا ہے ( 1 کرنتھیوں 1:7

ہوا وقت ہونا چاہئےخاص طور سے جب کھانے کا روزہ رکھا جاتا ہے۔روزہ میں ٹھرائے ہوئے وقت سے آگے بڑھنا یا

وقت کو آگے بڑھانا جسم کو نقصان پہنچاتاہے۔اس لئے مقررہ وقت کی ہدایت دی جاتی ہے۔ روزہ کا مقصد جسم

کو سزا دینا نہیں ہونا چاہئے۔

بلکہ خدا سے ھدایت پاکر اسی پر دھیان دینے کے غرض سے ہونا چاہئے۔ ہم کو یہ سمجھ کر روزہ نہیں رکھنا

چاہئے کہ اسی بہانے ہمارا "وزن کم ہوجائےگا” بائیبل کا روزہ وزن کم کرنے کا طریقہ نہیں ہے بلکہ خدا کے

ساتھ ہماری گہری رفاقت حاصل کرنے کے لئے ہے۔ ہر کوئی روزہ رکھ سکتا ہے مگر کچھ لوگ کھانے کا روزہ

نہیں رکھ سکتے۔ اس میں مردوں اور عورتوں کی بیماری کی حالتیں، شوگر کے مریض وغیرہ شامل ہیں۔ مگر ہر

کوئی خدا پر دھیان لگانے اور نزدیکی رفاقت حاصل کرنے کے لئے کچھ باتوں کو چھوڑ سکتا ہے۔

دنیا کی چیزوں سے اپنی نظریں ہٹانے کے ذریعہ ہم اور بھی کامیابی کے ساتھ مسیح پر دھیان کرسکتے ہیں۔

خدا کو اپنی مرضی کے مطابق قائل کرنے کے لئے روزہ رکھنا خدائی روزہ کا طریقہ نہیں ہے۔ روزہ ہم کو بدلتاہے

خدا کو نہیں۔ ہم دوسروں سے زیادہ روحانی دکھائی دیں اس کے لئے روزہ رکھنا بھی درست طریقہ نہیں ہے۔

روزہ حلیمی کے روح سے اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے رکھنا چاہئے نہ کہ چہرے پراداسی لیکر۔ متی- 18

 بیان کرتا ہے کہ "اور جب تم روزہ رکھو تو ریاکاروں کی طرح اپنی صورت اداس نہ بناؤ کیونکہ وہ اپنا منہ

بگاڑتے ہیں تاکہ لوگ ان کو روزہ دار جانیں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پاچکے۔ بلکہ جب تو روزہ

رکھے تو اپنے سر میں تیل ڈال اور منہ دھو۔ تاکہ آدمی نہیں بلکہ تیرا باپ جو پوشیدگی میں ہے تجھے روزہ دار

جانے اور صورت میں تیرا باپ جو تجھے پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دیگا”۔ روزہ کا اجر خدا تعالیٰ کی

طرف سے روزہ دار کو ملتا ہے اسی تعلق سے یسعیاہ کی کتاب کا اٹھاون باب بھی حقیقی اور خدا تعالیٰ کے

پسندیدہ روزہ کی بابت بیان کرتا ہے۔ چھ تا دس آیات میں لکھا ہے ۔”کیا وہ روزہ جو میں چاہتا ہوں یہ نہیں ظلم

کی زنجیریں توڑیں اور جوئے کے بندھن کہالیں اور مظلوموں کو آزاد کریں بلکی ہر ایک جوئے کو توڑ ڈالیں۔

کیا یہ نہیں کہ تو اپنی روٹی بھوکے کو کھلائے اور مسکینوں کو جوآوارہ ہیں گھر میں لائے اور جب کسی کو

ننگا دیکھے اُسے پہنائے اور تو اپنے ہم جسم سے روپوشی نہ کرے؟۔

تب تیری روشنی صبح کی مانند پھوٹ نکلے گی اور تیری صحت کی ترقی جلد ظاہر ہو گی۔تیری صداقت تیری ہر

آول ہوگی اور خداوند کا جلال تیرا چنڈاول ہو گا۔

تب تو پکارے گااور خداوند جواب دے گا۔تو چلائے گا اور فرمائے گا میں یہاں ہوں ۔اگر تو جوئے کو اور انگلوں سے

شارہ کرنے کو اور ہر زہ گوئی کو اپنے درمیان سے دور کرے گا۔

اگر تو اپنے دل کو بھوکے کی طرف مائل کرے اور آزدہ دل کو آ سودہ کرے تو تیرا نور تاریکی میں چمکے گااور

تیری تیرگی دوپہر کی مانندہو جائے گی۔

خُدا مرد ہے یا عورت ؟

خُدا مرد ہے یا عورت ؟

بائبل کے مطالعہ سے دو حقائق واضح ہوتے ہیں۔ پہلی حقیقت ، خُدا رُوح ہے اور انسانی خصوصیات اور حد بندیوں سے

بالکل آزاد۔ دوسری حقیقت، بائبل میں موجود تمام شواہد اِس بات پر متفق ہیں کہ خُدا نے بنی نو انسان پر اپنے آپ کو بطورِ

مرد ظاہر کیا۔ سب سے پہلے خُدا کی حقیقی فطرت کو سمجھنا ضروری ہے۔ خُدا ایک شخص ہے، کیونکہ وہ صاف طور پر

انسانی شخصیت کی تمام خصوصیات کو آشکارہ کرتا ہے۔ خُدا ذہن، مرضی، عقل، اور جذبات رکھتا ہے۔ خُدا بات چیت

کرتا ہے اور وہ تعلقات قائم کرتا ہے۔ اور خُدا کے شخصی افعال پوری بائبل میں اِس بات کی شہادت دیتے ہیں۔

جیسا کہ یوحنا ۲۴:۴ میں بیان ہے "خُدا رُوح ہے اور ضرور ہے کہ اُس کے پرستار رُوح اور سچائی سے اُس کی پرستش

کریں”۔ چونکہ خُدا رُوحانی ہے اِس لیے وہ انسانی اور جسمانی خصوصیات نہیں رکھتا۔ تاہم بعض اوقات بائبل میں

علامتی زبان کو استعمال کیا گیا ہے تاکہ اُس کی مدد سے انسان کے لئے ممکن بنایا جائے کہ وہ انسانی خصوصیات کو

خُدا کے ساتھ منسوب کر کے خُدا کی ذات کو سمجھ سکے۔ انسانی خصوصیات کو خُدا کے ساتھ منسوب کرنے کے عمل کو

"انتھروپومورفیزم” یعنی "عقیدہِ بشر پیکری” کہا جاتا ہے۔ انتھروپوموفیزم خُدا (روحانی) کے لیے صرف ایک ذریعہ ہے جس

کے وسیلہ سے وہ اپنی فطرت کی حقیقت انسان (جسمانی) پر آشکارہ کرتا ہے۔ چونکہ انسان جسمانی ہے، اِس لیے ہم اُن

چیزوں کو سمجھنے میں محدود ہیں جو جسمانی عالم سے باہر ہیں ۔اِس لیےبائبل میں موجود انتھروپوفیزم خُدا کو سمجھنے

میں ہماری مدد کرتی ہے۔

اِس حقیقت کا مشاہدہ کرنے میں بعض مشکلات پیدا ہوتی ہیں کہ انسان خُدا کی شبیہ پر بنایا گیا ہے۔ پیدائش ۲۶:۱ ۔ ۲۷

بیان کرتی ہے "پھر خُدا نے کہا ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں اور وہ سمندر کی مچھلیوں اور

آسمان کے پرندوں اور چوپایوں اور تمام زمیں اور سب جانداروں پر جو زمین پر رینگتے ہیں اِختیار رکھیں۔ اور خُدا نے

انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ خُدا کی صورت پر اُس کو پیدا کیا۔ نر و ناری اُن کو پیدا کیا”۔

مرد اور عورت دونوں خُدا کی صورت پر خلق ہوئے۔ اِسی وجہ سے وہ باقی تخلیق پر فوقیت رکھتے ہیں، اور خُدا کی طرح

ذہن، مرضی ، عقل، جذبات، اور اخلاقی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جانوروں کے پاس اخلاقی قابلیت نہیں ہے اور وہ انسان کی

طرح غیر فانی جزو (روح) بھی نہیں رکھتے۔ خُدا کی صورت روحانی جزو ہیں جو صرف انسان رکھتے ہیں۔ خُدا نے

انسانیت کو اِس لیے خلق کیا تاکہ وہ اُس کے ساتھ تعلق میں رہے۔ انسان واحد تخلیق ہے جو اِس مقصد کے لیے خلق ہوئی۔

اِس لیے کہا جاتا ہے کہ مرد اور عورت ہی صرف خُدا کی صورت پر بنائے گئے ہیں۔ وہ خُدا کی چھوٹی "نقول” نہیں ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ عورت اور مرد کو ایسے خُدا کی ضرورت نہیں ہے جو مرد اور عورت والی خصوصیات رکھتا ہو۔ یاد رکھیں

خُدا کی صورت پر پیدا ہونے کا تعلق جسمانی خصوصیات کے ساتھ ہرگز نہیں ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ خُدا روحانی ہے اور جسمانی خصوصیات نہیں رکھتا۔ تاہم یہ چیز خُدا کو محدود نہیں کر تی کہ وہ

کیسے اپنے آپ کو انسانیت پر ظاہر کرے۔ بائبل میں تمام مکاشفات موجود ہیں جو خُدا نے اپنے بارے میں انسان کو عطا

کئے۔ اور یہی خُدا کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا واحدحقیقی ذریعہ ہے۔ بائبل کے بیانات پر غور کرنے سے خُدا کی

صورت کے کئی شواہد ملتے ہیں جس میں خُدا نے اپنے آپ کو انسانیت پر ظاہر کیا۔

بائبل میں تقریباً ۱۷۰ حوالہ جات موجود ہیں جن میں خُدا کو "باپ” کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ کوئی باپ نہیں کہلا سکتا

جب تک وہ مرد نہ ہو۔ اگر خُدا اپنے آپ کو ظاہر کرنے کے لیے عورت کا رُوپ لیتا تو اِن حوالہ جات میں لفظ "باپ” نہیں "ماں”

استعمال ہوا ہوتا۔ پُرانے اور نئے عہد نامہ میں خُدا کے متعلق حوالہ جات میں بار بار بطور مذکر استعمال ہوا ہے۔

یسوع مسیح نے ہمیشہ خُدا کو باپ کے طور پر پیش کیا ہے۔ اور بہت سے اور حوالہ جات میں خُدا کے لیے اسم مذکر

استعمال کیا ہے۔ صرف اناجیلِ میں یسوع خُدا کے لیے اصطلاح "باپ” تقریباً ۱۶۰ دفعہ استعمال کرتا ہے۔ یسوع مسیح کا

ایک دلچسپ بیان یوحنا ۳۰:۱۰ میں ملتا ہے: ” میں اور باپ ایک ہیں”۔ ظاہر ہے کہ یسوع مسیح صلیب پر دُنیا کے گناہوں کی

قیمت چکانے کے لیے انسانی مرد کی شکل میں آیا۔ خُدا باپ کی طرح یسوع نے بھی اپنے آپ کو بنی نو انسان پر مرد کی

شکل میں ظاہر کیا۔ بائبل میں اور بھی متعدد حوالہ جات ہیں جہاں یسوع نے خُدا کے لیے مذکر اور اپنے لئیے بھی مذکر

القاب ہی استعمال کئے۔

عہدِ جدید کے خطوط (اعمال تا مکاشفہ)میں بھی لگ بھگ ۹۰۰ آیات ہیں جن میں یونانی لفظ (تھیوس) اسم مذکر ذاتِ خُدا

کے لیے مستعمل ہوا ہے۔بائبل میں اور بھی ان گنت حوالہ جات ہیں جہاں واضح طور پر خدا کا مستقل وجود مذکر القابات،

کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اگرچہ خُدا انسان نہیں ہے، تو بھی اُس نے بنی نو انسان پر اپنے آپ کو ظاہر کرنے کے لیے

مذکر وضع کا انتخاب کیا۔ اِسی طرح یسوع نے بھی جو ہمیشہ مذکر القابات، کے ساتھ پیش کیا گیا، اپنی زمینی زندگی

کے دوران مرد کی شکل اختیار کی ، یوحنا ۱۸:۱ خُدا کو کِسی نے کبھی نہِیں دیکھا۔ اِکلوتا بَیٹا جو باپ کی گود میں ہے

اُسی نے ظاہِر کِیا۔ عہدِ عتیق کے پیغمبر اور عہدِ جدید کے رسولوں نے خُدا باپ اور یسوع مسیح دونوں کو مذکر القابات کے

ساتھ پیش کیا۔ خُدا نے اِس شکل میں اپنے آپ کو اِس لیے ظاہر کیا تاکہ وہ آسانی سے انسان کو سمجھا سکے کہ وہ

کیسا ہے۔ اگرچہ خُدا ہماری مدد کرتا ہے تاکہ ہم اُسے سمجھ سکیں، بہت اہم ہے کہ ہم "خُدا کو ایک باکس (صندوق) میں

بند کرنے ” کی کوشش نہ کریں، اور نہ کچھ ایسا کہیں جس سے لگے کہ ہم خُدا پر ایسی حد بندیاں لگا رہے ہیں جو اُس

کی فطرت کے لیے مناسب نہیں۔ بلکہ جیسا اُس نے خود اپنی ذات کا مگاشفہ و بھید کھولا ہے ضرور ہے ھم اُسکی روشنی

میں ہی اُس کی ذات سے آشنائی و واقفیت حاصل کرکے برکت پائیں۔

تثلیث فی التوحید کی تعلیم کیا ہے؟ کیا تثلیث فی التوحید بائبل کے مطابق ہے؟

تثلیث فی التوحید کی تعلیم کیا ہے؟ کیا تثلیث فی التوحید بائبل کے مطابق ہے؟

تثلیث فی التوحید کی تعلیم خدا تعالیٰ کی ذات اقدس کو جاننے اُس پر ایمان لانے اُس کے نجات کے منصونہ کو سمجھنے

کےلئے بنیادی تعلیم ہے کہ خُدا ثالوث خُدا ہے، انسانوں پر اس بھید کو کھولنے کے لئے کلام خدا فرماتا ہے کہ اُسکی راھیں

8 خُداوند فرماتا ہے کہ میرے خیال – اور ھماری راھیں نہیں ، ہمارے خیال اور اُس کے خیال فرق ہیں ۔ یسیعاہ باب 9:55

تمہارے خیال نہیں اور نہ تمہاری راہیں میری راہیں ہیں۔ کیونکہ جس قدر آسمان زمین سے بلند ہے اُسی قدر میری راہیں

تمہاری راہوں سے اور میرےخیال تمہارے خیالوں سے بلند ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم تمام انسان اس بات سے حقیقی

طور سے واقف ہوں کہ وہ اپنا اظہار کیسےکرتا ہے۔ خُدا نے اپنے آپ کو تین یکساں ازلی شخصیات میں ظاہر کیا ہے۔

اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ "کیا نجات حاصل کرنے کے لئے تثلیث پر ایمان لانا ضروری ہے؟اِس کا جواب ہاں اور نہیں دونوں

ہیں مگر ہاں اور نہیں کیسے اس کو سمجھنا ضروری ہے پہلے اس پر غور کرتے ہیں۔ کیا کسی شخص کو نجات حاصل

کرنے کے لئے تثلیث کے ہر پہلو کو مکمل طور پر سمجھنا اور اُس کے ساتھ مُتفق ہونا ضروری ہے؟ جواب ہے نہیں۔ کیا تثلیث

کے کچھ ایسے پہلو ہیں جو نجات کے عمل میں اہم کِردار ادا کرتے ہیں؟ جی ہاں۔ مثال کےطور پر یسوع مسیح کی الُوہیت

عقیدہ نجات میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ اگر یسوع خُدا نہیں ہے، تو اُس کی موت گناہ کی لامحدود سزا کی قیمت ادا

نہیں کرسکتی۔ صرف خُدا ہی لامحدود ہے۔ اُس کا شروع ہے نہ ہی آخر۔ باقی تمام مخلوقات بشمول فرشتے محدود ہیں۔ اُن

کو کسی وقت پر تخلیق کیا گیا ہے۔ صرف ایک لامحدود ہستی کی موت ہی انسان کے گناہوں کا ابدی کفارہ ہو سکتی ہے۔

اگر یسوع خُدا نہیں ہے، تو وہ نجات دہندہ مسیح، خُدا کا برّہ نہیں ہو سکتا جو جہان کا گناہ اُٹھائے لے جاتا ہے (یوحنا

1:29 )۔ یسوع مسیح کی الہی فطرت کے غیر بائبلی نظریے کا نتیجہ نجات کا گمراہ کُن نظریہ ہو گا۔ ہر مسیحی فرقہ جو

یسوع مسیح کی حقیقی الوہیت کا انکار کرتا ہے یہ بھی سیکھاتا ہے کہ ہمیں نجات حاصل کرنے کے لئے مسیح کی موت کے

ساتھ اپنے نیک اعمال کو بھی شامل کرنا ضرور ہے۔ مسیح کی حقیقی اور کامل الوہیت جو کہ تثلیث فی التوحید کا ایک

پہلو ہے اِ س نظریہ کو ردّ کرتا ہے۔

اِس کے ساتھ ہی، ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ مسیحوں میں کچھ ایسے حقیقی ایماندار بھی ہیں جو تثلیث فی التوحید کو

مکمل طور پر نہیں مانتے۔ اگرچہ ہم ماڈل ازم (ایک عقیدہ کہ خُدا ایک ہی شخص ہے جس نے اپنے آپ کو باپ، بیٹا اور روح

القدس تین صورتوں/ رُوپوں میں ظاہر کیا) کو ردّ کرتے ہیں، لیکن ہم اِ س بات سے انکار نہیں کرتے کہ کوئی بھی انسان

۔ یہ ایمان رکھتے ہوئے نجات نہیں پا سکتا کہ خُدا تین اشخاص نہیں ہیں، بلکہ صرف اپنے آپ کو تین رُوپوں میں ظاہر کیا

ہے۔ تثلیث ایک بھید ہے جِسے محدود انسان مکمل اور کامل طور پر سمجھ نہیں سکتا۔ نجات فراہم کرنے کے لئے خُدا ہم سے

مطالبہ کرتا ہے کہ ہم مجسم خُدا یسوع مسیح کو اپنا نجات دہندہ کے طور قبول کریں۔ نجات دینے کے لئے خُدا ہم سے

مطالبہ نہیں کرتا کہ ہمیں مضبوط بائبلی تعلیم کے ہر پہلو کو مکمل طور پر سمجھنا ضروری ہے۔ نجات دینے کے لئے تثلیث

فی التوحید کے ہر پہلو کو مکمل طور پر سمجھنے اور اُس کے ساتھ مُتفق ہونے کا مطالبہ نہیں کیا جاتا۔

ہم دِل سے ایمان رکھتے ہیں کہ تثلیث فی التوحید بائبلی تعلیم ہے۔ ہم دلیری سے اعلان کرتے ہیں کہ بائبلی تثلیث پر ایمان

رکھنا اور اِسے سمجھنا خُدا ، نجات، اور ایمانداروں کی زندگی میں خُدا کے جاری کام کو سمجھنے اور جاری رکھنے کے

لئے بے حد ضروری ہے۔ کچھ ایسے ایماندار بھی ہیں جو مسیح کے حقیقی پیروکار تو ہیں، لیکن وہ تثلیث فی التوحید کے

کچھ پہلوؤں کے ساتھ اختلافِ رائے رکھتے ہیں۔ اِس بات کو یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہمیں کامل تعلیم رکھنے کی وجہ سے

نجات نہیں ملتی، بلکہ کامل نجات دہندہ پر ایمان لانے سےملتی ہے (یوحنا 3:16 )۔ نجات حاصل کرنے کےلئے کیا ہمیں تثلیث

فی التوحید کے کچھ پہلوؤں پر ایمان لانا ضروری ہے۔ جی ہاں ضروری ہے۔ کیا نجات حاصل کرنے کے لئے ہمیں تثلیث فی

التوحید کے تمام پہلوؤں کے ساتھ مکمل طور پر متفق ہونا ضروری ہے؟جی نہیں۔

کیا بائبل سچ مچ خدا کا کلام ہے؟

کیا بائبل سچ مچ خدا کا کلام ہے؟

بائیبل کے بارے میں جاننا کہ کیا یہ واقعی خدا کا کلام ہے بہت ہی اہم سوال ہے۔اس سوال کے جواب کو جاننا نہ صرف

ہمارے عقیدہ اور ایمان کو مضبوط کرے گا بلکہ مددگار بھی ہوگا کہ ہم بائبل کو کس نظریہ سے دیکھتے ہیں اور اس کو

اپنی زندگیوں میں کیسے اہمیت دیتے ہیں۔ بلکہ یہ آخر کار ابدی منزل کے انتخاب پر بھی اثر ڈالے گا۔ اگر بائبل سچ مچ

خداکا کلام ہے تو پھر چاہئے کہ ہم اس کو عزیز رکھیں، اس سے لو لگائے رہیں، اسکا مطالعہ کریں، اس کے حکموں کو بجا

لا ئیں، اور اس پر پوری طرح سے بھروسہ رکھیں۔ اگربائبل خداکا کلام ہے تو اس کو خارج کرنا یا ٹال دینے کا مطلب یہ ہے

کہ ہم خود خدا کو اپنی زندگیوں سے خارج کرتے یا ٹال دیتے ہیں۔

یہ حقیقت کہ خدا نے ہم کو جو بائبل عنایت کی ہے وہ ہمارے لئے اس کی محبت کا ثبوت اور مثال ہے۔ کلام خدا کے لئے عام

مقررہ لفظ "مکاشفہ” ہے جس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ خدا نے بنی انسان کو خبر دی ہے کہ وہ کس کی مانند ہے

اور ہم اس کے ساتھ کس طرح سے صحیح رشتہ قائم رکھ سکتے ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو ہم نہیں جان سکتے خدا نے

انہیں الہی طور سے ہمارے لئے کھول کر بیان کیا ہے۔ حالانکہ بائبل میں خدا کی ذات و صفات کا مکاشفہ لگ بھگ 1500

برسوں تک لگاتار دیا گیا تھا۔ خداکو جاننے کی بابت بائبل میں ہمیشہ سے ہی وہ ساری باتیں موجود ہیں جسے انسان کو

جاننے کی ضرورت ہے تاکہ خدا کے ساتھ انسان کا صحیح رشتہ قائم ہو سکے۔ اگر بائبل سچ مچ خدا کا کلام ہے تو

انسانون کےخدا پر ایمان، مذہبی حقیقی تعیلمات اوراخلاقی معاملوں کے لئے یہ آخری اختیار اور کسوٹی ہے۔

جو سوال ہمیں اپنے آپ سے کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ہم کس طرح معلوم کر سکتے ہیں کہ بائبل محض ایک اچھی

کتاب ہی نہیں بلکہ کامل طور سے خدا کا کلام ہے۔ بائبل کی بابت وہ کونسی بے مثل بات ہے جو دیگر تمام مذھبی کتابوں

سے جو اب تک لکھی گئی ہے الگ کرتی ہے؟ کیا بائبل کے سچ مچ خدا کا کلام ہونے کا کوئی ثبوت پایا جاتاہے؟ اگر ہمیں

بائبل کے دعوؤں کو جائز قرار دینے کے معاملہ کو پکا کرنا ہے تو اس طرح کے سوالات کو سنجیدہ طور سے جانچنا چاہئے

کہ بائبل ہی خدا کا کلام ہے، الہی طور سے الہام شدہ ہے اور ایمان کے تمام معاملات اور دستور العمل کے لئے کافی ہے۔

پولس رسول تیمتھیس کی تعریف میں جو بات پیش کرتاہے اس میں یہ بات صاف نظر آتی ہے۔ وہ کہتا ہے "اور تو بچپن سے

ان پاک نوشتوں سے واقف ہے جو تجھے مسیح یسوع پر ایمان لانے اور نجات حاصل کرنے کے لئے دانائی بخش سکتے ہیں۔

ہرایک صحیفہ جو خدا کے الہام سے ہے تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کے لئے فائدہ مند بھی ہے

3)۔ : 15- تاکہ مرد خدا کامل بنے اور ہر ایک نیک کام کے لئے بالکل تیار ہو جائے” ( 2 تموتھیس 17

بائبل کے سچ مچ خدا کا کلام ہونے کے کئی ایک اندرونی اور باہری ثبوت موجود ہیں۔ اندرونی ثبوتوں میں بائبل کے اندر

لکھی وہ باتیں ہیں جو اصل میں الہی ہونے کی گواہی پیش کرتی ہیں۔ بائبل سچ مچ خدا کاکلام ہونےکی بابت کئی ایک

اندرونی اور باہری ثبوت موجود ہیں۔ اندرونی ثبوتوں میں سے پہلا ثبوت اسکے اتحاد میں دیکھا گیاہے۔حالانکہ یہ حقیقت میں

66 منفرد کتابیں ہیں جو تین بڑے حصوں میں، تین فرق زبانوں میں، لگ بھگ 1500 سال کے عرصہ میں، 40 سے زیادہ

مصنفوں کے ذریعہ جو فرق فرق گوشہ گمنامی سے آئے تھے لکھی گئی ہے اس کے باوجود بھی وہ شروع سے لیکر آخر تک

بغیر کسی اختلاف کے ایک اتحاد اور تریتب میں نظر آتی ہیں۔ یہی اتحاد دیگر تمام کتابوں سے بے مثل ہے اور اصلی کلام

الہی ہونے کا ثبوت پیش کرتا ہے جسے خدا نے ان مصنفوں کو قلمبند کرنے کے لئے تحریک دی۔

دوسرا اندرونی ثبوت جواشارہ کرتا ہے کہ بائبل سچ مچ خداکاکلام ہے وہ اسکے اوراق کے اندر پائی جانے والی نبوتیں ہیں۔

بائبل میں کئی سو مفصل نبوتیں پائی جاتی ہیں جن کا تعلق کسی خاص شخص سے، کہیں خاص قوم سے جن میں بنی

اسرائیل بھی شامل ہے، شہروں سے اور بادشاہوں سے ہے۔ اس کی خاص نبوت مسیح کے دنیا میں آنے کی بابت ہے جو کہ

تمام ایمان لانے والوں کا نجات دہندہ ثابت ہوگا۔ کچھ انسانوں کی گڑھی ہوئی نبوتیں جیسے ناسٹرے دیمس کی نبوتیں ہیں

جو کبھی پوری نہیں ہوئیں۔ایسے ہی کچھ ایک مذہبی کتابوں کی نبوتیں ہیں جنہیں نبوت کہنا بھی شرم کی بات ہے۔ ان

تمام نبوتوں کے مقابلے میں صرف اور صرف بائبل کی نبوتیں ہیں جو سچی اور تفصیل سے بیان کی گئی ہیں۔بائبل کے

پرانے عہدنامے میں تین سو سے زیادہ یسوع مسیح کی پہلی آمد کے بارے میں نبوتیں پائی جاتی ہیں۔یہ نبوتیں نہ صرف

اس کے پیدا ہونے کے مقام کی بابت ہے کہ وہ کہاں پیدا ہوگا اور کس صلب اور کنبہ سے پیدا ہوگا بلکہ ان میں وہ پیش

بینیاں بھی ہیں کہ اس کی موت کیسے ہوگی اور مُردوں میں سے زندہ ہوگا۔ سیدھے اور صاف طریقے سے دیکھا جائے تو

بائبل میں پوری ہوئی ان نبوتوں کو سمجھنے کے لئے وہ کس طرح سے پوری ہوئی الہی اصل ہونے کے علاوہ اور کوئی

معقول طریقہ نہیں ہے کیونکہ خدا کا کلام اُسکی قدرت سے پورا ہوتا ہے۔ بائبل میں جس تعداد میں اور جس قسم کی پیش

گوئیاں اور نبوتیں پائی جاتی ہیں اس طور سے کسی دوسری مذہبی کتاب میں نہیں پائی جاتی۔

بائبل کے الہی اصل ہونے کا تیسرا ثبوت اس کا بے مثل اختیار اور قوت ہے۔ جبکہ یہ ثبوت پہلی دو ثبوتوں سے زیادہ اہمیت

رکھتا ہے۔ یہ بائبل کے الہی اصل ہونے کے لئے ایک طاقتور گواہی سے کم نہیں ہے۔ اب تک جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان

میں سے بائبل کا اختیار اور قوت بالکل ہی مختلف ارر غیر مشابہ ہے، اس کا اختیار اور قوت ہر طرح سے بہترین نظر آتی

ہے کیونکہ یہ کتاب بے شمار زندگیاں خداکے کلام کی مو فوق الفطرت قوت کے ذریعہ بدل چکی ہیں۔ نشیلی دواؤں کے عادی

اس سے ٹھیک کئے گئے ہیں۔ ہم جنسی میلان کے عادی اس سے آزاد ہوئے ہیں۔ لا وارث، خونی، ٹھگ اور چور ڈاکوؤں کی

زندگیاں تبدلی ہو چکی ہیں۔ سنگین جرائم کے مجرم لوگ اسکی تحرک سے بدل کر اعلیٰ اخلاق کے پیام بر بن گئے ہیں۔ بڑے

سے بڑے گنہگار اس سے تنبیہ پا راست زندگیاں گزارنےوالےبن چکے ہیں۔ نفرت کرنے والے اب پیار کرنے لگے ہیں کیونکہ

انہوں نے خدا کی محبت کو پہچانا ہے۔ بائبل میں متحرک ہونے اور بدلنے والی قوت پائی جاتی ہے۔ یہ اس لئے ممکن ہے

کیونکہ یہ سچ مچ خدا کا کلام ہے۔

کچھ بیرونی ثبوت بھی ہیں جو اشارہ کرتے ہیں کہ بائبل سچ مچ خدا کا کلام ہے۔ پہلا ہے بائبل کا تاریخی ہونا، کیونکہ

بائبل تاریخی واقعات کا خلاصہ کرتی ہے۔ اس کی سچائی اور اس کا ٹھیک ٹھیک ہونا اس کی تصدیق اور دیگر تاریخی

دستاویز پر منحصر کرتاہے۔ آثار قدیمہ اور دیگر تاریخی تحریروں سے ملنے والے دونوں ثبوتوں کے ذریعہ بائبل میں لکھے

ہوئے تاریخی واقعات نے باربار ثابت کر دیا ہے کہ ان کا ہونا تاریخی اعتبار سے صحیح اور سچ ہے۔ در حقیقت تمام آثار

قدیمہ اور دستاویزی ثبوت جو بائبل کی تصدیق کرتے ہے قدیم زمانہ سے لے کر آج ثابت کرتے ہیں کہ یہ سب سے بہترین

کتاب کے خود کو ثابت کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بائبل صحیح اور سچے طریقہ سےتاریخی واقعات کو قلمبند کرتی ہے۔

بائبل مذہبی موضوع اور اصولوں کے ساتھ برتاؤ کرتے وقت اس کے سچ ہونے کی طرف بہت بڑا اشارہ ہے۔ اس کی دلیلیں یہ

دعویٰ پیش کرنے میں مدد کرتی ہے کہ یہ خدا کا ہی کلام ہے۔

بائبل سچ مچ خدا کا کلام ہونے کے لئے دوسرا بیرونی ثبوت یہ ہے کہ اس کے انسانی مصنفوں کی ایمانداری اور دیانت

داری۔ جیسے پہلے بھی بیان کیا ہے کہ خدا نے کئی ایک گوشۂ گمنامی سے آئے ہوئے لوگوں کو استعمال کیا کہ وہ اس کے

کلام کو قلمبند کریں۔ ان لوگوں کی زندگیوں کو جانچتے وقت ہم انہیں ایماندار اور وفادار پاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو

ایمان وہ زندہ خدا پر رکھتے تھے اس کی خاطر اذیت ناک موت سہہ کر بھی مر مٹنے کے لئے تیار تھے۔ یہ باتیں ہمیں

گواہی دیتی ہیں کہ یہ سیدھے سادھے لوگ ہونے پر بھی ایماندار تھے۔ انہوں نے خدا پرایمان رکھتے ہوئے جاناکہ سچ مچ

خدا نے ان سے بات کی ہے یعنی انہیں الہام ہوا تھا کہ وہ ان باتوں کو لکھیں۔ وہ لوگ جنہوں نے نئے عہد نامہ کو لکھا اور

دیگر کئی سو ایماندار ( 1 کرنتھیوں 15:6 )۔ وہ اپنے پیغام کی سچائی کو جانتے تھے۔انہوں نے یسوع مسیح کو اس کے

مُردوں میں سے زندہ ہونے کے بعد اسے دیکھا تھا اور اس کے ساتھ رہے تھے۔ جی اٹھے مسیح کو دیکھنا ان کی زندگیوں

پر اس طرح سے اثر انداذ ہوا جو مسیح کی موت کے بعد جب وہ خوف کے مارے چھپے ہوئے تھے باہر نکل کر خدا کے پیغام

کے لئے جو ان پر کھل کتا تھااس کو لکھنے، دوسروں تک پہنچانے اور اس کی خاطر مر مٹنے کے لئے تیار ہو گئے تھے۔ ان

کی زندگی اور موت اس حقیقت کی گواہی دیتے ہے۔ کہ بائبل سچ مچ خداکا کلام ہے۔

آخری بیرونی شہادت کہ بائبل سچ مچ خدا کا کلام ہے وہ ہے بائبل کی کو ختم کرنے کے لئے اس پر حملوں کا ہونا۔اس لئے

کہ اس کی اہمیت اور اس کے دعوے کہ یہ سچ مچ خدا کا کلام ہے بائبل نے کئی ایک سخت حملوں کو سہا۔ تاریخ میں دیگر

کتاب کے موازنہ میں بائبل کو برباد کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ رومی سلطنت کے ابتدائی زمانہ میں ڈیو کلیٹین، کمیونسٹ

حاکم سے لے کر موجودہ زمانہ کے ملحد اور دیگر مذہب کے ماننے والےان سب نے بائبل کو برباد کرنے کی کوشش کی پھر

بھی وہ اپنے مقام پر قائم ہے اور اس کے حملہ آوروں کے ہوتے ہوئے بھی زیادہ سے زیادہ پھیلتی جا رہی ہے۔ اور فی زمانہ

تک پوری دنیا میں اسے زیادہ سے زیادہ شائع کیا جارہاہے۔

ہمیشہ سے ہی چھان بین کرنے والوں نے بائبل کو علم الاصنام کے طور جانا۔ مگر آثار قدیمہ نے اسے تاریخی ہونے کو

تصدیق کیا۔ مخالفوں نے اس کی تعلیم پر اعتراض کیا کہ اسکی تعلیم کا انداز قدیم ہے۔ اور موجودہ دور کا نہیں ہے۔ مگر

اسکے دینی اور قانونی تصورات نے دنیا کے معاشروں اور تہذیبوں میں ایک زبردست اثباتی اثر ڈالا۔ جھوٹے سائنسدان۔

نام نہاد نفسیات کے ماہریں، اور مختلف ادور کے سیاسی ماہرین و سیاستدانوں کے ذریعے آج بھی اس پر مسلسل متحرک

حملے ہوتے ہیں پھر بھی اس پر ویسے ہی اعتبار کیا جاتا ہے جیسے اسے پہلے لکھا گیا تھا۔ یہ ایسی کتاب ہے جس نے

پچھلے 2000 سالوں سے بے شمار زندگیوں اور تہذیبوں کو بدلا ہے۔ مخالف چاہے کتنا بھی اس پر حملہ کرنے یا برباد

کرنے یا اسے بدنام کرنے کی کوشش کرے پھر بھی بائبل اپنی جگہ پر قائم ہے۔ اس کی راست گوئی اور صداقت جو

زندگیوں پراثر ڈالتی ہے وہ بے مغالطہ ہے۔ اس کی تعلیم کو خراب کرنے، حملہ کرنے یا برباد کرنے کی ہر ایک نا ممکن

کوشش کے باوجود بھی اس کی درستی کو خدا کی قدرت میں محفوظ رکھا گیا ہے یہ اس حقیقت کی صاف گواہی ہے کہ

بائبل سچ مچ خداکا کلام ہے اور اس کی مافوق الفطرت طریقہ سے حفاظت کی گئی ہے۔ اس سے ہم کو تعجب کرنے کی

ضرورت نہیں ہے چاہے بائبل پر کیسے بھی حملے کیوں نہ ہوں۔ اس کا پیغام ہمیشہ لا تبدیل اور کھرا نکل آئے گا اور بے

ضرر نکل آئےگا۔ بہر حال یسوع نے کہا "آسمان اور زمین ٹل جائیں گے مگر میری باتیں ہرگز نہیں ٹلے گی” (مرقس

13:31 )۔ ان تمام ثبوتوں کو دیکھنے کے بعد بغیر کسی شک کہ ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ بائبل سچ مچ خدا کا کلام ہے۔

بائبل فکر کرنے کے بارے میں کیا تعلیم دیتی ہے

بائبل فکر کرنے کے بارے میں کیا تعلیم دیتی ہے

بائبل واضح طور پر سکھاتی ہے کہ مسیحوں کو فکر نہیں کرنی چاھئے ہے. فلپیوں 6:4 میں، ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ

’’کِسی بات کی فِکر نہ کرو[فکر نہ کرو] بلکہ ہر ایک بات میں تُمہاری دَرخواستیں دُعا اور مِنّت کے وسِیلہ سے شُکرگُذاری

کے ساتھ خُدا کے سامنے پیش کی جائیں۔ “ کلام کے اس حوالے میں ہم واقف ہوتے ہیں کہ ہم زندگی کے تمام حالات اور

چیزوں کے بارے میں فکر کرنے کی بجائے دعا کے ذریعے اپنی تمام ضروریات اور خدشات و سوسے خداوند کے حضور لانا

چاہئے. یسوع مسیح خود ہماری حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ لباس اور کھانے پینے کی طرح ہماری جسمانی ضروریات کے

بارے میں فکر کرنے سے بچنے کے لۓ، یسوع مسیح ہمیں یقین دلاتا ہے کہ ہمارا آسمانی باپ ہماری تمام ضروریات کا خیال

رکھے گا. کلام خدا میں لکھا ہے ” اِس لِئے مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ اپنی جان کی فِکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا

پیئیں گے؟ اور نہ اپنے بَدَن کی کہ کیا پہنیں گے؟ کیا جان خوراک سے اور بَدَن پوشاک سے بڑھ کر نہِیں؟

ہوا کے پرِندوں کو دیکھو نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے۔ نہ کوٹھِیوں میں جمع کرتے ہیں تو بھی تُمہارا آسمانی باپ اُن کو

کھِلاتا ہے۔ کیا تُم اُن سے زیادہ قدر نہِیں رکھتے؟

تُم میں اَیسا کون ہے جو فِکر کر کے اپنی عُمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے؟

اور پوشاک کے لِئے کِیُوں فِکر کرتے ہو؟ جنگلی سوسن کے دَرختوں کو غور سے دیکھو کہ وہ کِس طرح بڑھتے ہیں۔ وہ

نہ محنت کرتے نہ کاتتے ہیں۔

تو بھی مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ سلیمان بھی باوجود اپنی ساری شان وشوکت کے اُن میں سے کِسی کی مانِند مُلبّس

نہ تھا۔

پَس جب خُدا میدان کی گھاس کو جو آج ہے اور کل تنُور میں جھونکی جائے گی اَیسی پوشاک پہناتا ہے تو اَے کم

اِعتِقادو تُم کو کِیُوں نہ پہنائے گا؟

اِس لِئے فِکرمند ہو کر یہ نہ کہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پیئیں گے یا کیا پہنیں گے؟

کِیُونکہ اِن سب چِیزوں کی تلاش میں غَیر قَومیں رہتی ہیں اور تُمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تُم اِن سب چِیزوں کے

مُحتاج ہو۔

بلکہ تُم پہلے اُس کی بادشاہی اور اُصکی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چِیزیں بھی تُم کو مِل جائیں گی۔

پَس کل کے لِئے فِکر نہ کرو کِیُونکہ کل کا دِن اپنے لِئے آپ فِکر کرلے گا۔ آج کے لِئے آج ہی کا دُکھ کافی ہے.“

.(34– (متی 25:6

لہذا، ہمیں کسی چیز کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے.چونکہ فکر مندی ایک ایماندار کی زندگی کا حصہ

نہیں ہونا چاہئے، مگر بعض اوقات بہت سے ایماندار فکر مندی کا شکار رھتے ہیں۔ لیکن ایک ایماندار کس طرح

فکرمندی پر قابو پائے اور مسلسل غلبہ بھی، کلام خدا پر غور کرنے سے ہمیں اس کا حل ملتا ہے اور اس پر فتح

7 میں، ہمیں ہدایت دی گئی ہے کہ "اور اپنی ساری فِکر اُسی پر ڈال دو کِیُونکہ : پانے میں مدد ملتی ہے؟ 1 پطرس 5

اُس کو تُمہارا خیال ہے۔.” خدا چاہتا ہے کہ ہم اپنے مسائل اور بوجھوں کے وزن کے تلے دبے ہوئے نہ رہیں. اس آیت

میں، خدا ہمیں یہ کہہ رہا ہے کہ وہ ہمارے تمام مسائل کو حل کرے گا اور تمام ضروریات کو بھی پورا کرے گا. خدا

ہمارے مسائل کیوں لینا چاہتا ہے؟ بائبل یہ کہتی ہے کہ وہ ہماری پرواہ اور فکر کرتا ہے. خدا ہمارے تمام حالات جن

کا ہمیں سامنا ہے جانتا ہے اور ہماری ہر چیز کے بارے میں فکر مند ہے. کوئی بھی مسئلہ اس کی ہمارے لئے فکر

مندی کے سامنے بہت بڑا یا بہت چھوٹا نہیں ہے. جب ہم اپنے مسائل اور بوجھ خدا کو دے دیتے ہیں تو، وہ ہمیں

اپنے اُس اطمینان سے پھر دیتاہے جس اطیمنان کو دینے کا اُس نے وعدہ کر رکھا ہے جو انسانی عقل و فہم سے

باھر ہے۔” تو خُدا کا اِطمینان جو سَمَجھ سے بِالکُل باہِر ہے تُمہارے دِلوں اور خیالوں کو مسِیح یِسُوع میں محفُوظ

.( رکھّے گا۔“ . ( فلپیوں 7:4

بے شک، ان لوگوں کے لئے جو یسوع مسیح بطور نجات دہندہ نہیں جانتے، فکر مندی اور تشویش انکی زندگی کا حصہ بنیں

گے. لیکن ان لوگوں کے لئے جنہوں نے اپنی زندگی یسوع مسیح کو دے دی ہوئی ہے۔، یسوع نے وعدہ کیا، “اَے محنت اُٹھانے والو

اور بوجھ سے دبے ہُوئے لوگو سب میرے پاس آؤ۔ میں تُم کو آرام دُوں گا۔

میرا جُوا اپنے اُوپر اُٹھا لو اور مُجھ سے سِیکھو۔ کِیُونکہ مَیں حلِیم ہُوں اور دِل کا فروتن۔ تو تُمہاری جانیں آرام پائیں گی۔

.(30-28 : کِیُونکہ میرا جُوا ملائِم ہے اور میرا بوجھ ہلکا۔ “(متی 11