خدا آپ کا اطمینان ہے
’’کسی بات کی فکر نہ کروبلکہ ہرایک بات میں تمہاری درخواستیں دُعا اورمنت کے وسیلہ سے شُکرگزاری کے ساتھ خُدا کے سامنے پیش کی جائیں۔ تو خُدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے تمہارے دِلوں اور خیالوں کو مسیح یسوع میں محفوظ رکھے گا۔‘‘ (فلپیوں ۴ : ۶۔ ۷)
اگرآپ کسی فیصلہ کے تعلق سے شدید پریشانی یا الجھاوٗ کا شکار ہیں تو عین ممکن ہے کہ آپ خدا کی آواز سننے کے بجائے اپنے خیالات میں پھنسے ہوئے ہیں۔بائبل فرماتی ہے کہ ’’خدا ابتری کا خدا نہیں ہے۔‘‘( ۱ کرنتھیوں ۱۴ : ۳۳)۔ وہ ابتری کا بانی نہیں ہے۔پس اگرآپ اپنی زندگی میں الجھاوٗ کا شکار ہیں تو آپ کو جاننا چاہیے کہ یہ خدا کی آواز نہیں ہے۔
پچھلے ہفتے میں نے فیصلہ جات اور اُن انتخابات کے تعلق سے کچھ تحریر کیا جو مسیحی کی حیثیت سے ہمیں کرنے پڑتے ہیں ۔ اور شاید سب سے اہم فیصلہ جو ہمیں کرنا پڑتا ہے وہ خدا کی فرمانبرداری کا ہے۔جب بھی آپ خدا کی فرمانبرداری کے لئے تیار ہوتے ہیں تو اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ اوراگرآپ خدا کی فرمانبرداری سے انکار کرتے ہیں تو ذرا ٹھہریں اور سوچیں کہ کیا اس وقت بھی آپ کے دل میں حقیقی اطمینان موجود رہتا ہے۔
ابلیس چاہتا ہے کہ آپ لاچاری اور مجبوری کے تحت فیصلے کریں، لیکن خدا آپ کو مہربانی (محبت)سے اپنی طرف مائل کرناچاہتا ہے۔ابلیس آپ کی مجبوری کا فائدہ اُٹھا کر آپ کو گناہ میں دھکیلنا چاہتاہے۔ لیکن خدا آپ کا اچھا چرواہا ہےاس لئے وہ آپ کو اپنی نزدیکی اور حقیقی اطمینان دینا چاہتا ہے۔
جس طرح ٹیلی وژن نیٹ ورک چلانے کے لئے ٹی .وی .سگنل کی ضرورت ہوتی ہے، اُسی طرح ہمیں روحانی سگنل موصول ہوتے ہیں۔اور جس طرح ہم مخصوص چینل دیکھنے کے لئے ٹیلی وژن سگنل کاچناوٗکرتے ہیں اسی طرح ہمارے پاس روحانی سگنل کا چناوٗ بھی موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ ’’آپ کون سا چینل دیکھ رہے ہیں؟‘‘’’آپ کس کی آواز سن رہے ہیں؟‘‘اگر آپ کو خدا کی طرف سے ہمیشہ منفی پیغامات موصول ہوتے ہیں تو کچھ گڑ بڑ ہے۔سگنل ادَل بدل ہو چکے ہیں۔
ایک ہی ٹیلی وژن پر آپ دو پروگرام ایک ساتھ نہیں دیکھ سکتے اور اِسی طرح آپ خدا اور دشمن کی آواز ایک ساتھ نہیں سن سکتے۔آپ کو کسی ایک کی آواز سننے کافیصلہ کرنا ہے۔ اگر آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ خدا آپ سے کچھ کہہ رہا ہے لیکن اس کی وجہ سے آپ کی پریشانی میں اضافہ ہو گیا ہے تو کہیں گڑبڑ ہے۔میں آپ کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں کہ دعا کریں کہ خدا ا ن مخصوص حالات میں آ پ سے کلام کرے۔
اگر آج آپ پریشان ہیں اور شدید تناوٗ کا شکار ہیں اور حالات آپ کی توقع کے مطابق نہیں ہیں تو آپ کو ایک فیصلہ کرنا ہے،یا تو آپ حیرانی سے سب کچھ بکھرنے کا انتظار کریں یا خدا پر ایمان اور بھروسہ کرنے کا فیصلہ کریں۔
ہم سب کو کسی نہ کسی پریشانی اور تناوٗ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت کچھ لوگوں کو پسینہ آتاہے کچھ لوگ چِلاتے ہیں اور کچھ بالکل خاموش ہوجاتے ہیں۔ کیا آپ بھی مصائب کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں؟کیا آپ مستقبل کے تعلق سے نااُمیدی کا شکار ہیں؟کیا آپ کو لگتا ہے کہ خدا بہت دُور ہے؟کیا آپ کو جسمانی علامات جیسے سَر درد، ناخن چبانایا پیٹ میں گڑ بڑ محسوس ہوتی ہے؟کیا ناکامی اور شکستگی کو قبول کرنا آپ کے لئے مشکل ہے؟کیا آپ تھک چکے ہیں؟ کیا آپ کو فیصلہ کرنا مشکل لگتا ہے؟کیا مختلف واقعات آپ کے دماغ میں گھوم پھر کرباربار واپس آتے ہیں؟یہ سب پریشانی اور تناوٗ کی نشانیاں ہیں۔
ہم سوچتے ہیں کہ فکر کرنا ہمارے لئے اچھّا ہے۔ کیونکہ اِس طرح کرنے سے ہمیں یاد رہتا ہے کہ کیا کرنا چاہیے اور ہم اپنے اگلے اقدام کا تعین کر سکتے ہیں ۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ یہ ہمارے فائدے کی چیز نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس پریشانی ہم پر حاوی ہو جاتی ہے ۔یہ ہماری خوشی کو چھین کر ہمارے تعلقات میں بگاڑ پیدا کرتی ہے۔جب تک ہمیں فکر کرنے کے علاوہ کوئی اچھا کام نہیں مل جاتا ہم فکرکرتے رہیں گے۔
آپ کس طرح پریشانی سے چھٹکارا پا سکتے ہیں؟ میں چاہتا ہوں کہ اس ہفتے آپ متی ۸ باب میں موجود کہانی پر غور کریں جہاں یسوع نے پریشانی کے تعلق سے کلام کیا ہے۔آپ ایمان سے حقیقت کا سامنا کرنا سیکھ لیں گے۔