روزہ کے بارےمیں بائبل کیا تعلیم دیتی ہے

روزہ کے بارےمیں بائبل کیا تعلیم دیتی ہے

روزہ کے بارے میں تصور و تعلیم مختلف مذاھب میں پائی جاتی ہے۔ جن میں الہامی اور غیر الہامی کہلانےوالے

دونوں طرح کے مذاھب شامل ہیں۔ ان تمام مذاھب میں روزہ رکھنےکا طریقہ اسکے اوقات اور مقاصد بھی

مختلف طرح سے پائے جاتے ہیں۔ بائبل جب روزہ کے تعلق سے مسیحوں سے مخاطب ہوتی ہے تو کلام پاک

مسیحیوں کو روزہ رکھنے کا حکم نہیں دیتا۔ خدا کو اس ضرورت نہیں ہے یا مسیحیوں سے وہ اس کا تقاضہ

بھی نہیں کرتا۔ لیکن اسکےساتھ ہی کلام پاک روزہ کو ایک اچھی چیز کے طور پر، فائدہ مند اور نفع بخش بتاتا

ہے۔ اعمال کی کتاب میں ایمانداروں کا روزہ رکھنےکے تعلق سے ذکر ملتا ہےکہ جب بھی وہ کوئی فیصلہ کرناچاھتے تھے

(23:14 ,۔  اس سے پہلے روزہ رکھتے تھے۔روزہ اور دعا اکثر یہ ایک ساتھ جڑے ہوئےہیں (اعمال 2:13

(33:5,۔ اکثر روزہ کا مطلب ایک یا دو وقت کے کھانے کو ترک کردینا ہوتا ہے۔مگر حقیقت  (لوقا 37:2

میں روزہ کا مقصد دنیا کی باتوں کو زندگی سے ہٹادینے کے لئے ہونا چاہئے تاکہ ہمارا پورا دھیان خدا کی طرف

لگا رہے۔ روزہ خدا کو یہ بتانا اورخود کو باور کرانا کہ ہم خدا کے ساتھ رشتہ کے لئے سنجیدہ ہیں۔ روزہ خدا

کے ساتھ زیادہ قریب ہونے کاایک نیا آغاز اور خدا پر نئے طور انحصار و بھروسہ کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔

گو کلام میں روزہ میں کھانے سے فاقہ کرنے کی بابت لکھا ہؤا ہے مگر روزہ رکھنے کے کچھ اور طریقے بھی

پائے جاتے ہیں۔ جیسے کہ خدا پر پوری طرح سے دھیان دینے کے لئے، کسی بھی بات کو (اپنے کام کاج، محنت

(5-۔ روزہ کا ایک ٹھرایا – ومشقت) کو چھوڑ کر دعا بندگی میں وقت گزارنا بھی روزہ کہلاتا ہے ( 1 کرنتھیوں 1:7

ہوا وقت ہونا چاہئےخاص طور سے جب کھانے کا روزہ رکھا جاتا ہے۔روزہ میں ٹھرائے ہوئے وقت سے آگے بڑھنا یا

وقت کو آگے بڑھانا جسم کو نقصان پہنچاتاہے۔اس لئے مقررہ وقت کی ہدایت دی جاتی ہے۔ روزہ کا مقصد جسم

کو سزا دینا نہیں ہونا چاہئے۔

بلکہ خدا سے ھدایت پاکر اسی پر دھیان دینے کے غرض سے ہونا چاہئے۔ ہم کو یہ سمجھ کر روزہ نہیں رکھنا

چاہئے کہ اسی بہانے ہمارا "وزن کم ہوجائےگا” بائیبل کا روزہ وزن کم کرنے کا طریقہ نہیں ہے بلکہ خدا کے

ساتھ ہماری گہری رفاقت حاصل کرنے کے لئے ہے۔ ہر کوئی روزہ رکھ سکتا ہے مگر کچھ لوگ کھانے کا روزہ

نہیں رکھ سکتے۔ اس میں مردوں اور عورتوں کی بیماری کی حالتیں، شوگر کے مریض وغیرہ شامل ہیں۔ مگر ہر

کوئی خدا پر دھیان لگانے اور نزدیکی رفاقت حاصل کرنے کے لئے کچھ باتوں کو چھوڑ سکتا ہے۔

دنیا کی چیزوں سے اپنی نظریں ہٹانے کے ذریعہ ہم اور بھی کامیابی کے ساتھ مسیح پر دھیان کرسکتے ہیں۔

خدا کو اپنی مرضی کے مطابق قائل کرنے کے لئے روزہ رکھنا خدائی روزہ کا طریقہ نہیں ہے۔ روزہ ہم کو بدلتاہے

خدا کو نہیں۔ ہم دوسروں سے زیادہ روحانی دکھائی دیں اس کے لئے روزہ رکھنا بھی درست طریقہ نہیں ہے۔

روزہ حلیمی کے روح سے اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے رکھنا چاہئے نہ کہ چہرے پراداسی لیکر۔ متی- 18

 بیان کرتا ہے کہ "اور جب تم روزہ رکھو تو ریاکاروں کی طرح اپنی صورت اداس نہ بناؤ کیونکہ وہ اپنا منہ

بگاڑتے ہیں تاکہ لوگ ان کو روزہ دار جانیں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پاچکے۔ بلکہ جب تو روزہ

رکھے تو اپنے سر میں تیل ڈال اور منہ دھو۔ تاکہ آدمی نہیں بلکہ تیرا باپ جو پوشیدگی میں ہے تجھے روزہ دار

جانے اور صورت میں تیرا باپ جو تجھے پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دیگا”۔ روزہ کا اجر خدا تعالیٰ کی

طرف سے روزہ دار کو ملتا ہے اسی تعلق سے یسعیاہ کی کتاب کا اٹھاون باب بھی حقیقی اور خدا تعالیٰ کے

پسندیدہ روزہ کی بابت بیان کرتا ہے۔ چھ تا دس آیات میں لکھا ہے ۔”کیا وہ روزہ جو میں چاہتا ہوں یہ نہیں ظلم

کی زنجیریں توڑیں اور جوئے کے بندھن کہالیں اور مظلوموں کو آزاد کریں بلکی ہر ایک جوئے کو توڑ ڈالیں۔

کیا یہ نہیں کہ تو اپنی روٹی بھوکے کو کھلائے اور مسکینوں کو جوآوارہ ہیں گھر میں لائے اور جب کسی کو

ننگا دیکھے اُسے پہنائے اور تو اپنے ہم جسم سے روپوشی نہ کرے؟۔

تب تیری روشنی صبح کی مانند پھوٹ نکلے گی اور تیری صحت کی ترقی جلد ظاہر ہو گی۔تیری صداقت تیری ہر

آول ہوگی اور خداوند کا جلال تیرا چنڈاول ہو گا۔

تب تو پکارے گااور خداوند جواب دے گا۔تو چلائے گا اور فرمائے گا میں یہاں ہوں ۔اگر تو جوئے کو اور انگلوں سے

شارہ کرنے کو اور ہر زہ گوئی کو اپنے درمیان سے دور کرے گا۔

اگر تو اپنے دل کو بھوکے کی طرف مائل کرے اور آزدہ دل کو آ سودہ کرے تو تیرا نور تاریکی میں چمکے گااور

تیری تیرگی دوپہر کی مانندہو جائے گی۔