یسوُع کی تعلیمات کو کیا چیز منُفرد بناتی ہیں؟
کہا جاتا ہے کہ اگر یسُوع خُدا نہیں ہے، تو پھر ہمیں اُس شخص کی عبادت کرنی چاہیے جس نے اُس کے بارے میں یہ خیال پیش کیا تھا ، کیونکہ تب سے اب تک اور اِس سے قبل اِس انداز سے کبھی کسی شخص نےیہ بات نہیں کی۔ جو تعلیمات میں نے خاص طور پر بادشاہی کے بارے میں دریافت کی ہیں ، اُن باتوں میں خود کو مستند ثابت کرنے کی حقیقت موجوُد ہے۔ اِن میں ہر دور کے لوگوں کے تجربات کی گوُنج پائی جاتی ہے۔ جب اِن اصولوں کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے تو یہ ہمیں بڑی استقامت سے سلامتی، ہم آہنگی، فتح اور محبت کی طرف لے جاتے ہیں۔ اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یسُوع کی تعلیمات میں تضاد پیدا نہیں ہو سکتا ۔ کیونکہ جب کوئی خُدا کی تعلیمات کو قبوُل کرتا ہے تو اُسکا اُن لوگوں کے ساتھ تضاد ہوتا ہے جو بدی میں رہنا جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
یسوع کے الفاظ میں حکمت دھڑکتی ہے۔ مثال کے طور پر دنیوی حکومتوں کے بارے میں اُس کی سوچ: ’’پس جو قیصر کا ہے قیصر کو اور جو خُدا کا ہے خُدا کو ادا کرو‘‘ (متی ۲۲ : ۲۱) خُدا کے روُح ہونے کے بارے میں اُس کی سوچ: ’’خُدا رُوح ہے اور ضرُور ہے کہ اُس کے پرستار رُوح اور سچّائی سے اُسکی پرستِش کریں‘‘ (یوحنا ۴: ۲۴)۔ اپنے پہاڑی واعظ میں کہتا ہے ، ’’لیکن میں تُم سے یہ کہتا ہُوں کہ اپنے دُشمنوں سے محبّت رکھّو اور اپنے ستانے والوں کے لِئے دُعا کرو‘‘ (متّی ۵: ۴۴)۔ سب سے بڑا حکم ’’ خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبّت رکھ، اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبّت رکھ، اِنہی دو حُکموں پر تمام توریت اور انبیا کے صحِیفوں کا مدار ہے۔ (متّی ۲۲: ۳۷ ـ ۴۰)۔ پوُری تاریخ کے بارے میں یسوُع کا علم حد سے زیادہ قابِل تعریف تھا، تاریخ میں کوئی بھی شخص ایسا نہیں گزرا جو اُس کے قریب بھی پھٹک سکا ہو۔ علاوہ اَزیں سب سے بڑھ کر یہ کہ، یسوُع مرُدوں میں سے زندہ ہوُا ، لوگوں پر ظاہر ہوُا ، اپنا روُح لوگوں پر بھیجا ، اور لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو تبدیل کیا ۔ انجیل ِ مقدس جہاں بھی آپکو ملے گی وہاں آپکو ترقی ملے گی، آزادی، رہائی، اور خاندانی وفاداری … ہر وہ چیز جسے لوگ اپنے دِل کی حسرت قرار دیتے ہیں وہاں ملتی ہیں۔ یہ کوئی اتفاق نہیں کہ جِن قوموں کو مسیح سے منسوُب کیا جاتا ہے وہ صدیوں سے پوُری دنیا میں ہر طرح کی کامیابیوں میں سب کو پیچھے چھوڑتے آے ہیں ۔ یہ سچ ہے کہ مسیحت کے نام پر دنیا میں بہت سے جرائم بھی کئے گئے ہیں۔ لیکن جو اِس جرُم کے مرتکب ہوُے وہ مسیح یا اُس کی تعلیمات سے واقف نہ تھے۔ مسیح نے لوگوں کو یہوُدیوں اور ’’بِدعتی‘‘ لوگوں کو اذئیت دینے کو نہیں کہا۔ بہت سے ایسے نام نہاد ’’بِدعتی لوگ‘‘ درحقیقت وہ تھے جو خُدا کو جانتے تھے اور وہ ایسے خُدا پرست لوگوں کے ہاتھوں مُجرم ٹھہراے جا رہے تھے جو اُس کو نہیں جانتے تھے۔
مذہب میں ہوتا یوُں ہے کہ ایک نسل یسُوع کو پا لیتی ہے اُس کے لیے قائم رہتی ہے۔ دوُسری نسل تعلیم کو سُن کر سیکھتی ہے۔ تیسری نسل اِس کے بارے میں کچھ نہیں جانتی لیکن دنیوی قوُت کو پکڑے رہنے کے جواز کے لیے مذہب کو استعمال کرتی ہیں۔ ایسے لوگوں نے کروُسیڈ شروع کئے اور تحقیقات عمل میں لاے۔ وہ مذہب کا استعمال کرتے تھے لیکن وہ یسُوع کو نہیں جانتے تھے۔ جہاں بھی آپ سیاسی قوُت اور دنیاوی مقاصد کے حصول کےلئے مسیحت کو استعمال کرتے دیکھیں ، وہاں آپکو اکثر نیا عہد نامہ کی عملی تعلیم غیر حاضر ملے گی۔ تب اگر آپ وہاں مذھب کے نام پر حد سے زیادہ گناہ ہوتے ہوُے دیکھیں ۔ تو اِن بے انتہا گناہوں کے سرزد ہونے کے لیےجو اُس کے نام کے لبادے میں ہوتے ہیں نہ ہی یسوع اور نہ ہی اُس کی تعلیمات پر الزام لگائیں۔
۔
کیا یہ جواب آپ کے لیے مددگار ثابت ہوُا تھا؟ ہا ں ٍٍ/ نہیں