کیا انسان خُدا کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے؟
صدیوں سے بے دین لوگوں اور ناستکوں کے دعوؤں کے برعکس، انسان خُدا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ انسان خُدا کو
تسلیم کئے بغیر فانی وجود تو رکھ سکتا ہے، لیکن خُدا کی حقیقت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔
خالق کے طور پر خُدا نے انسانی زندگی کا آغاز کیا
یہ کہنا کہ انسان خُدا کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے دراصل یہ کہنا ہے کہ ایک گھڑی گھڑی ساز کے بغیر بن سکتی ہے، یا
ایک کہانی لکھاری کے بغیر معرض وجود میں آ سکتی ہے۔ ہم اپنے وجود کے لئے خُدا کے شکر گزار ہیں جس کی صورت و
شبیہ پر ہم بنائے گئے (پیدائش 27:1 )۔چاہے ہم تسلیم کریں یا نہ کریں ہمارے وجود کا انحصار خُدا پر ہے۔
(32- ایک کفیل کے طور پر، خُدا مسلسل زندگی کو قائم رکھتا ہے (زبور 10:104
وہ زندگی ہے (یوحنا 6:14 )، اور ساری تخلیق یسوع کی قدرت سے قائم رہتی ہے (کُلسیوں 17:1 )۔ یہاں تک کہ جو یسوع کو
ردّ کرتے ہیں وہ بھی اُسی کی وجہ سے قائم ہیں۔ "تاکہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو کیونکہ وہ اپنے سورج
کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راست بازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے” (متی 45:5 )۔ یہ سوچنا
کہ انسان خُدا کے بغیر رہ سکتا ہے یہ فرض کرنا ہے کہ سورج مکھی روشنی کے بغیر ، یا گلاب کا پھول پانی کے بغیر
زندہ رہ سکتا ہے۔
نجات دہندہ کے طور پر، خُدا اُن کو ابدی زندگی دیتا ہے جو اُس پر ایمان لاتے ہیں
مسیح یسوع میں زندگی ہے جو آدمیوں کے لئے نور ہے (یوحنا 4:1 )۔ یسوع اِس لئے آیا کہ ہم زندگی پائیں "اور کثرت سے
16 )۔ اگر – پائیں” (یوحنا 10:10 )۔ جتنے اُس پر ایمان لاتے ہیں اُن کے ساتھ ابدی زندگی کا وعدہ کیا گیا ہے (یوحنا 3:15
انسان واقعی زندہ رہنا چاہتا ہے تو ضرور ہے کہ وہ یسوع کو جانے (یوحنا 3:17 )۔
خُدا کے بغیر انسان صرف جسمانی زندگی گزار سکتا ہے
خُدا نے آدم اور حوا کو خبردار کیا کہ جس دن اُنہوں نے خُدا کا حکم توڑا وہ "مر” جائیں گے (پیدائش 17:2 )۔ جیسا کہ ہم
جانتے ہیں کہ انہوں نے نافرمانی کی، لیکن وہ اُس دن جسمانی طور پر نہیں مرے، بلکہ وہ روحانی طور پر مر گئے تھے۔ اُن
کے اندر سے روحانی زندگی، خُدا کے ساتھ رفاقت، اُس سے لطف اندوز ہونے کی آزادی، اُن کی جانوں اور روحوں کی
معصومیت اور پاکیزگی سب کچھ ختم ہو گئی تھیں۔
آدم جسے خُدا کی شراکت میں رہنے کے لئے تخلیق کیا گیا تھا، مکمل طور پر جسمانی وجود کے ساتھ لعنتی ٹھہرا۔ جس
خاک کو خُدا نے جلال دینے کا ارادہ کیا تھا، اب وہ خاک میں مل گئی۔ آدم کی طرح آج بھی انسان خُدا کے بغیر زمینی
وجود رکھ سکتا ہے۔ ایسا شخص خوش نظر آسکتاہے، اِس زندگی میں وہ خوش وخرم رہ کر لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ لیکن
یہ لطف اندوزیاں اور خوشیاں بھی خُدا کے ساتھ تعلقات کے بغیر مکمل طور پر حاصل نہیں ہو سکتیں۔
بعض لوگ جو خُدا کو ردّ کرتے ہیں خدا کےانکاری اور عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہیں۔ اُن کا یہ جسمانی شُغل بےاور
فکر اور فرحت بخش وجود پیدا کرتا ہے۔ بائبل بیان کرتی ہے کہ گناہ میں ہونے والی خوشی کا ایک خاص انداز ہے مگر
اسکی حقیقت (عبرانیوں 25:11 )۔ یہ ہے کہ یہ خوشی چند روزہ ہوتی ہے۔ اِس دُنیا میں گزاری جانے والی زندگی مختصر
12 )۔ مصرف بیٹے کی تمثیل میں مصرف بیٹے کی طرح لذت پسند شخص کو جلد یا بعد میں پتہ چلتا ہے کہ – ہے (زبور 3:90
15:13 )۔ – دُنیاوی لذت وقتی اور بے فائدہ ہے (لوقا 15
تاہم، خُدا کو ردّ کرنے والا ہر شخص خالی خوشی کا طالب نہیں ہے۔ بہت سے ایسے غیر نجات یافتہ لوگ ہیں جو نظم و
ضبط اور سنجیدگی ، یہاں تک کہ خوشحال اور لطف اندازی سے بھری زندگی گزارتے ہیں۔ بائبل کچھ مخصوص اصول
پیش کرتی ہے جس سے اِس دُنیا میں کسی کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے جس میں وفاداری، ایمانداری، اور ضبط نفسِ
وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن دوبارہ کہتے ہیں کہ خُدا کے بغیر یہ صرف اِسی دُنیا میں حاصل ہوتا ہے۔ اِس دُنیا میں پُر آسائش
16 میں موجود امیر – زندگی اِس بات کی ضمانت نہیں ہے کہ ہم بعد کی زندگی کے لئے بھی تیار ہو گئے ہیں۔ لوقا 12:12
23 میں موجود اُمیر شخص کی زندگی پر غور کریں۔ – کسان کی تمثیل ، اور متی 19:16
خُدا کے بغیر انسان اپنی فانی زندگی میں بھی ادھورا ہے
انسان اپنےساتھی ہم جنس انسان کے ساتھ آسودہ نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے آپ میں آسودہ نہیں ہے۔ انسان اپنے آپ میں
بے قرار ہے کیونکہ وہ خُدا کے ساتھ امن کی حالت میں نہیں ہے۔ خوشی کی خاطر، خوشی کا تعاقب اِس بات کی علامت
ہے کہ انسان اندرونی خرابی کا شکار ہے۔ تاریخ اِس بات کی گواہی دیتی ہے کہ خوشی کے طالب اپنے اِس زندگی کی
خوشی کی جتنی بھی جستجو کر لیں وہ اپنے اندر گہری مایوسی محسوس کرتے ہیں۔ اِس احساس کو کہ "کچھ تو غلط
ہے” ختم کرنا مشکل ہے۔ سلیمان بادشاہ نے خود کو اِس دُنیا کی ہر خوشی کے حصول کے لئے پیش کر دیا، اور اُس نے
اپنی دیارفت کردہ تمام اشیا کو واعظ کی کتاب میں قلمبند کیا ہے۔
18 )۔ اُس نے معلوم کیا کہ خوشی – سلیمان نے دریافت کیا کہ علم خود میں اور خود سے دُکھ کی فراوانی ہے (واعظ 1:12
23 )، اور دولت عارضی ہے (باب 6)۔ – 11 )، مادہ پرستی بیوقوفی ( 2:12 – اور دولت بطلان ( 2:1
13 ) اور عقلمندی اِسی میں کہ خُدا کے خوف میں زندگی – سیلمان نے نتیجہ اخذ کیا کہ زندگی خُدا کی نعمت ہے ( 3:12
گزاری جائے، "اب سب کچھ سُنایا گیا۔ حاصل کلام یہ ہے ۔ خُدا سے ڈر اور اُس کے حکموں کو مان کہ انسان کا فرضِ
کُلی یہی ہے۔ کیونکہ خُدا ہر ایک فعل کو ہر ایک پوشیدہ چیز کے ساتھ خواہ بھلی ہو خواہ بُری عدالت میں لائے گا” (واعظ
(14-12:13
دوسرے الفاظ میں، زمینی زندگی سے زیادہ اہم بعد کی زندگی ہے۔ یسوع نے اِس نقطہ پر یہ کہتے ہوئے زور دیا، "آدمی
صرف روٹی سے ہی جیتا نہیں رہے گا بلکہ ہر اُس بات سے جو خُد اکے منہ سے نکلتی ہے” (متی 4:4 )۔ جسمانی روٹی
نہیں بلکہ خُدا کا کلام (روحانی روٹی) ہمیں زندہ رکھتی ہے۔ اپنی تمام مصیبتوں کا علاج اپنے اندر تلاش کرنا بے سُود ہے۔
انسان صرف اُس وقت زندگی حاصل کر سکتا ہے جب وہ خُدا کو تسلیم کرتا ہے۔
خُدا کے بغیر انسان کی منزل جہنم ہے
انسان خُدا کے بغیر روحانی طور پر مُردہ ہے، جب اُس کی جسمانی زندگی ختم ہو جاتی ہے تو وہ خدا سے ابدی جُدائی کا
سامنا کرتا ہے۔ امیر شخص اور غریب لعزر کے بارے میں یسوع کے بیان میں، امیر شخص خُدا کے بغیر خوشگوار زندگی
گزارتا ہے، جبکہ لعزر اپنی زندگی دکھوں میں گزارتا لیکن خُدا سے واقف ہوتا ہے۔ اپن اموات کے بعد دونوں اپنی زمینی
زندگی میں اپنی مرضی کے نتائج کو سمجھتے ہیں۔ امیر شخص کو احساس ہونے میں بہت دیر ہو چُکی تھی کہ دولت کے
حصول کے مقابلے میں زندگی زیادہ اہم ہے۔ اِسی طرح، لعزر کو فردوس میں آرام کی جگہ میسر ہوئی۔ دونوں اشخاص کے
لئے، اُن کی رُوحوں کی ابدی حالت کے مقابلے میں ، اُن کے زمینی وجود کی مختصر مُدت کم اہمیت کی حامل ٹھہری۔
انسان ایک منفرد تخلیق ہے۔ خُدا نے ہمارے دلوں میں ابدیت کا احساس قائم کیا ہے (واعظ 11:3 )، اور صرف وقت کی قید
سے ماروا منزل کا احساس ہی ہمیں اس قابل کر سکتا ہے خدا تعالیٰ کے بغیر ہم ادھورے ہیں۔ متی 26:16 ۔ ۔